المرتضی فاونڈیشن

ایک دینی، فرهنگی، و فلاحی اداره

المرتضی فاونڈیشن

ایک دینی، فرهنگی، و فلاحی اداره

آخر کیوں شیعہ حضرات

آخر کیوں شیعہ حضرات پیغمبروں بالخصوص پیغمبر اکرم (ص) کے والد اور اجداد کے مومن ہونے کے معتقد ہیں جب کہ وہ حضرات اس وقت مکہ والوں کے دین پر زندگی بسر کر رہے تھے ؟

شیعہ علماء کے نظریات

تمام شیعہ اثنا عشری علماء اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر عبد اللہ تک سب کے سب مومن اور موحد تھے ۔ اب ہم ان میں سے کچھ لوگوں کے نظریات کو بیان کرتے ہیں:

1۔ بزرگ محدث، ابو جعفر علی بن حسین بن بابویہ جنھیں ”شیخ صدوق “ کے نام سے شہرت حاصل ہے، اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد کے سلسلہ میں ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ان کے والد بزرگوار تک سب کے سب مسلمان تھے ۔ 1

2۔ شیخ مفید ، شیخ صدوق کے مذکورہ جملہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: پیغمبر (ص) کے تمام آباء و اجداد حضرت آدم (ع) تک موحد ( ایک خدا کے قائل) تھے ۔ اور ابو جعفر شیخ صدوق (ع) کے نظریہ کے مطابق وہ سب خدا پر ایمان رکھتے تھے ۔ اور شیعہ جو برحق فرقہ ہے وہ اس بات پر اجماع رکھتا ہہے ۔ 2

ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: شیعہ اثنا ء عشری علماء اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد حضرت آدم (ع) سے لے کر عبد المطلب تک سب کے سب خدا پر ایمان رکھتے تھے اور اس کی وحدانیت کے قائل تھے ۔ 3

3۔ شیخ الطائفہ، جناب ابو جعفر طوسی تحریر فرماتے ہیں: یہ بات ہمارے علماء کے نزدیک ثابت ہوچکی ہے اور ان کے درمیان کوئی ایک شخص بھی کافر نہیں تھا ۔ اس سلسلہ میں ان کی دلیل فرقہ برحق کا اجماع ہے اور یہ بات علم اصول میں ثابت وہ چکی ہے کہ یہ اجماع، جن میں معصوم کے دخول کی وجہ سے حجت ہے اور اس مسئلہ میں امامیہ ( شیعہ اثنا عشری) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

4۔ بلند پایہ کے شیعہ مفسر ابو علی طبرسی نے اس مبارک آیت < یا ابت لا تعبدوا الشیطان > کی تفسیر کرتے وقت اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ یہ خطاب حضرت ابراہیم (ع) کے ایسے باپ سے ہے جو ماں کی جانب سے حد تھے ورنہ ابراہیم (ع) کے حقیقی باپ کا نام ”تارُخ“ تھا۔ لکھتے ہیں: شیعہ علماء کا اجماع ہے کہ پیغمبر (ص) کے تمام آباء و اجداد حضرت آدم (ع) تک مسلمان اور موحد تھے ۔ 4

5۔ مرحوم مجلسی لکھتے ہیں: کہ تمام شیعہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر (ص) کے والدین گرامی اور تمام آباء و اجداد حضرت آدم (ع) تک مسلمان بلکہ ان کا شمار صدیقین میں ہوتا ہے۔ان میں سے ایک گروہ نبی مرسل کا ہے اور دوسرا گروہ معصوم اوصیاء کا ہے۔شاید ان میں سے بعض نے دینی مصلحت یا تقیہ کے پیش نظر اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا ۔ 5

6۔ شیعوں کا یہ عقیدہ اس حد تک معروف و مشہور رہا ہے کہ امام فخر رازی اپنی تفسیر میں شیعوں کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ: شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد میں کوئی ایک شخص بھی کافر نہیں تھا ۔ یہ لوگ ابراہیم (ع) کے والد کے کافر ہونے کا انکار کرتے ہوئے آ زر کو حضرت ابراہیم (ع) کا چچا مانتے ہیں۔ 6

شیعہ اثنا عشری کے موافق حضرات کے نظریات

پیغمبر کے آباء و اجداد مسلمان ہونے کے سلسلہ میں اہل سنت کا ایک گروہ، شیعوں کا ہم فکر اور موافق ہے ۔ لہذا ان میں بعض کے نظریات اور جملوں کو ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں:

1۔ آلوسی بغدادی نے اس آیت < وتقلبک فی الساجدین > کے ذیل میں لکھا ہےکہ اس آیت کے ذریعہ پیغمبر (ص) کے والدین گرامی کے ایمان کو ثابت کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ بہت سے بزرگ اہل سنت نے اس استدالال کو قبول بھی کیا ہے ۔ 7

پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں: اہل سنت کے اکثر علماء اس بات کے قائل ہیں کہ آذرحضرت ابراہیم (ع) کے والد نہیں تھے ۔ اور انھوں نے اس طرح دعوی کیا ہے کہ پیغمبر کے آباء و اجداد میں کوئی بھی شخص کافر نہیں تھا، اور اگر کوئی شخص فخر رازی کی طرح یہ دعویٰ کرے کہ یہ نظریہ اور قول صرف شیعوں کا ہے تو یہ اس کے کم علمی اور مطالعہ کی دلیل ہے ۔

2۔ کتانی ” نظم المتناثر “ نامی کتاب میں بوجوری کے حوالے سے لکھتے ہیں: وہ حدیثیں تواتر کی حد تک ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ پیغمبر (ص) کے تمام باپ اور ماں موحد تھے اور انھوں نے ہر گز کفر اختیار نہیں کیا، ان میں کوئی عیب اور پلیدی، اسی طرح اہل جاہلیت کی کوئی بھی چیز ان میں نہیں تھی ۔ 8

3۔ اہل سنت کے ایک برجستہ عالم دین، جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر سیوطی نے پیغمبر کے آباء و اجداد کے ایمان پر تاکید کرتے ہوئے اس پر کافی زور دیا ہے اور اس سلسلہ میں متعدد کتابیں بھی لکھی ہیں ۔

انھوں نے اس سلسلہ میں جن کتابوں کی تالیف کی ہے وہ اس طرح ہیں:

ا۔ مسالک الحنفاء فی نجاة آباء المصطفی ۔

ب۔ الدرج المنیفة فی الآباء الشریفة ۔

ج۔ المقامة السندسیة فی النسبة المصطفویة ۔

د۔ التعظیم و المنة فی ان ابوی رسول اللہ فی الجنة ۔

ر۔ السبل الجلیة فی الآباء العلیة ۔

س۔ نشر العلمین فی اثبات عدم وضع حدیث احیاء ابویہ و اسلامھما علی یدیہ ۔ 9

ان کے علاوہ اور جو دوسرے لوگ رسول اکرم کے آباء و اجداد کے ایمان کے قائل ہیں ان کے نام اس طرح ہیں: مسعودی اور یعقوبی، ماوردی کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔ رازی نے ”اسرار التنزیل “ میں اسی طرح سنونی اور تلسماتی نے بھی رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد کے ایمان کو صراحت سے ساتھ بیان کیا ہے ۔ 10

قاضی ابوبکر بن عربی سے لوگوں نے پوچھا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کہتے ہیں: رسول خدا (ص) کے والد ماجد جہنم میں ہیں ؟ !

انھوں نے برجستہ جواب دیا: ایسا شخص ملعون ہے، کیونکہ خدا کا ارشاد ہے < ان الذین یوذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا و الآخرہ > اب اس سے بڑی اذیت اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی پیغمبر کے والدین کے بارے میں یہ کہے کہ وہ جہنم میں ہیں ۔ 11

انھوں نے ہی ابو نعیم اصفہانی سے نقل کیا کہ: عمر بن عبد العزیز کے لئے ایک منشی لایا گیا جس کا باپ کافر تھا، تو عمر بن عبد العزیز نے کہا: اگر اولاد مہاجر سے ہوتا تو بہتر تھا ۔ منشی نے جواب دیا: پیغمبر کے والد بھی تو کافر تھے ! یہ سن کر عمر بن عبد العزیز کو غصہ آگیا اور کہا: اس حکومت میں ایسے منشی کی ضرورت نہیں ۔ 12

مشہور و معروف محدث و مفسر جناب عجلونی اسی طرح کا عقیدہ ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کہ پیغمبر کے والدین گرامی کے اسلام سے متعلق بہت سے علامء نے کتابیں لکھی ہیں (خدا وند متعال ان کی اس کوشش پر انھیں جزائے خیر دے) کیونکہ انھوں نے بھی کتاب ”المقاصد“ میں لکھا ہے کہ اس موضوع پر ایک جلد کتاب لکھی ہے ۔ 13

انھوں نے اس عقیدہ کو دوسروں کی جانب منسوب کرتے ہوئے لکھا: حفاظ محدثین اور غیر محدثین حضرات کی اکثریت اسی نظریہ کی حامی اور موافق ہے اور اسی سلسلہ میں ابن شاہین، و حافظ ابو بکر بغدادی، و سہیلی، و قرطی اور محب طبری جیسے لوگوں کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ 14

اس کے باوجود بھی اہل سنت کے بہت سے علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے والدین اور آباء و اجداد کافر تھے صرف یہی نہیں بلکہ ان میں سے بعض نے تو اس موضوع کو ثابت کرنے کے لئے کتابیں اور جریدے (میگزین) بھی تالیف کر ڈالی ہیں جیسے ابراہیم حلبی اور علی قاری ۔

امام فخر رازی کہتے ہیں: ہمارے علماء کا یہی خیال اور عقیدہ ہے کہ پیغمبر کے والد ماجد کافر تھے۔ 15

پیغمبر اکرم کے والد ماجد اور اجداد کے ایمان پر دلیلیں

شیعہ اثنا عشری اپنے اس مدعا پر ( کہ پیغمبر کے تمام آباء و اجداد مومن ہیں) کافی دلیلیں بیان کی ہیں جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں:

1۔ پیغمبر اسلام (ص) کے تمام آباء و اجداد کے ایمان شیعہ اثنا عشری کا اجماع ہے ۔

2۔ خدا کے اس فرمان سے استدلال < الذین یراک حین تقوم، وتقلبک فی الساجدین > معنی آیت یہ ہے کہ خداوند عالم روح پیغمبر کو ایک سجدہ کرنے والے سے دوسرے سجدہ کرنے والے کی طرف منتقل کر دیتا ہے ۔ 16 اس معنی کے پیش نظر آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر کے تمام اجداد مسلمان تھے، اسی وجہ سے اس آیت کے ذیل میں ابن عباس، امام محمد باقر اور امام محمد صادق علیہما السلام سے مردوی ہے کہ: پیغمبر یکے بعد دیگرے ایک پیغمبر سے دوسرے پیغمبر کی صلب میں منتقل ہوئے ۔ 17

اسی آیت کے ذیل میں سیوطی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں: کہ رسول خدا (ص) ایک پیغمبر کی صلب سے دوسرے پیغمبر کی صلب میں منتقل ہوتے رہے پھر خدا نے ان میں بعنوان پیغمبر مبعوث کیا ۔ 18

3۔ پیغمبر کا ارشاد گرامی ہے :< لم یزل ینقلی اللہ من اصلاب الطاھرین الی ارحام المطھرات، حتی اخرجنی فی عالمکم، ولم ید نسنی بدنس الجاھلیة > خدا نے مجھے دائمی طور سے اور مسلسل پاک صلبوں سے پاک خواتین میں منتقل کیا یہاں تک کہ مجھے آپ کی دنیا میں پیدا کر دیا اور مجھے جاہلیت کی پلیدی اور خباثت سے دور رکھا ۔ 19

اگر پیغمبر کے آباء و اجداد میں ایک شخص بھی کافر ہوتا تو پیغمبر کبھی بھی ان سب کو طہارت سے متصف نہیں کرتے ۔ کیونکہ خدا کا ارشاد ہے < انما المشرکون نجس >

4۔ حضرت ابراہیم (ع) تک پیغمبر کے ایمان کو اس آیت کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ہے جس میں خدا حضرت ابراہیم (ع) اور اسماعیل (ع) کی حکایت بیان کر رہا ہے: < واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امة مسلمة لک > 20 پھر اسی آیت میں اس آیت کو ضمیمہ کریں < وجعلھا کلمة باقیة فی عقبہ > 21 ان دونوں آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ کلمہ ” اللہ “ قیامت تک ابراہیم (ع) کی ذریت میں باقی رہنا چاہئے، اسی طرح قیامت تک ذریت ابراہیم کی سرایتی جماعت (یعنی لوگوں) کا ہونا بھی ضروری ہے جو اپنی فطرت کے مطابق خدا کی عبادت کریں ۔ گویا یہ حضرت ابراہیم (ع) کی دعا کی قبولیت کا اثر ہے چونکہ انھوں نے خداسے دعا کی تھی < واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام > مجھے اور میرے فرزندوں کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ، اور یہ بھی مطالبہ کیا تھا <رب اجعلنی مقیم الصلاة ومن ذریتی> بار الٰہا ! مجھے اور میری اولاد کو نمازیوں میں شمار فرما ۔

5۔ پیغمبر اسلام (ص) کے جد محترم جناب عبد المطلب کے ایمان کی دلیلوں میں سے ان کا وہ جملہ اور دعا ہے جو انھوں نے حبش کے رہنے والے ابرہہ بادشاہ کے سلسلہ میں اس وقت کی تھی جب اس نے خانۂ کعبہ کو خراب کرنے کی غرض سے حملہ کیا تھا، کیونکہ حضرت عبد المطلب نے اس ہولناک موقع پر بتوں سے پناہ مانگنے کے بجائے خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے خدا پر بھروسہ کیا۔ 22

بلکہ ہم تو اس حد تک کہہ سکتے ہیں کہ جناب عبد المطلب پیغمبر کے درخشان مستقبل اور ان کی شان و منزلت کے عارف تھے ۔ چونکہ طلب باران کے لئے وہ پیغمبر کو اس وقت صحرا میں لے گئے جب حضرت کا بچپنا تھا ۔ ان کا یہ رد عمل سوائے پیغمبر کی عظمت و منزلت کے اعتقاد کے اور کچھ نہ تھا ۔ 23

اسی وجہ سے ہم تاریخ کے صفحات پر ملاحظہ کرتے ہیں کہ جناب عبد المطلب پیغمبر کے بچپن میں جناب ام ایمن سے تاکید کوتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس بچہ سے ہر گز غافل نہ ہونا ۔ 24

پیغمبر اسلام (ص) کے والد اور اجداد کا ایمان روایات کی نظر میں:

اہلسنت اور شیعہ اثنا عشری کی کتابوں میں موجود روایتوں کا مطالعہ کرنے پر ایسی بہت سی روایتیں ملیں گی جن میں پیغمبر اسلام (ص) کے والد ماجد کے ایمان کو واضح اور روشن طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ اور ان میں سے بعض روایتوں کو یہاں پر پیش کر رہے ہیں:

الف) روایات شیعہ

1۔ شیخ کلینی اپنی سند کے ساتھ امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ امام (ع) نے فرمایا: جبرئیل (ع) پیغمبر پر نازل ہوئے اور عرض کی اے محمد ! خداوند متعال آپ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے فرماتا ہے: بے شک میں نے ان صلبوں پر جہنم کو حرام قرار دیا ہے جنھوں نے آپ کو پیدا کیا۔ (اسی طرح) اس رحم پر جس نے آپ کا حمل (اٹھایا) کیا، اور اس مربی کی جس نے آپ کی کفالت کی ۔ 25

2۔ شیخ طوسی اپنی سند کے ذریعہ جابر بن عبد اللہ انصاری سے انھوں نے پیغمبر اسلام (ص) سے ایک حدیث کے ضمن میں نقل کیا کہ پیغمبر فرماتے ہیں: جب خدا نے مجھے خلق کیا تو مجھے ایک پاک و پاکیزہ نطفہ سے پیدا کیا، پھر اس کو میرے پدر آدم کی صلب میں قرار دیا، اس کے بعد اسی طرح سے ایک پاک صلب سے، پاک رحم میں حضرت نوح و ابراہیم (ع) تک منتقل کیا یہاں تک کہ میرے والد ماجد عبد المطلب تک پہونچا، لہذا جاہلیت کی برائیوں کا میرے نزدیک گذر بھی نہیں ہوا۔ 26

3۔ امیر المومنین حضرت علی (ع) انبیاء مرسلین کے صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” خدا نے پیغمبروں کو بہترین جگہوں پر قابل رشک مکانوں پر مستقر کیا ۔ آباء و اجداد کی کریم صلبوں سے ماؤوں کے پاک رحموں تک منتقل فرمایا تاکہ جب بھی ان میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخت سفر باندھ لے تو دوسرا دین خدا کو آگے بڑھانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو یہاں تک کہ نبوت کا عظیم منصب خداکی جانب سے پیغمبر تک پہونچا، ان کے وجود مبارک کو بہترین معدن سے بنایا ان کے وجود کلی کو اصلی اور محبوب ترین زمینوں پر کھلایا اور پھر پروان چڑھایا، انھیں بھی اسی درخت سے پیدا کیا جس سے دوسرے تمام نبیوں اور امینوں کو پیدا کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی عترت اور ان کا خاندان بہترین خاندان اور ان کے مبارک وجود کا درخت سے سے بہتر درخت ہے، ان وجود کا درخت اللہ کے محفوظ حرم میں اگا اور کریم گھرانے کی آغوش میں رشد و نمو پایا، اس کی بلندشاخیں اس حد تک آسمان کی بلندی کی طرف پہونچ گئیں کہ کوئی بھی اس کے میوے تک رسائی نہیں رکھ سکتا“۔27

4۔ شیخ صدوق اپنی سند کے ساتھ حضرت علی (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ امیر المومنین (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم ! میرے والد ماجد اور جد امجد عبد المطلب ہاشم اور عبد مناف نے کبھی بھی کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا، جب حضرت سے پوچھا گیا تو پھر وہ لوگ اس کی عبادت کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: خدا کے گھر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اور حضرت ابراہیم (ع) کے دین پر باقی تھے اور اسی سے تمسک رہے ۔

5۔ شیخ صدوق ہی نے اپنی سند کے ذریعہ جابر بن یزید جعفی سے انھوں نے عبد اللہ انصاری سے نقل کیا کہ پیغمبر سے پوچھا گیا آپ اس وقت کہاں تھے جس وقت حضرت آدم (ع) بہشت میں تھے ؟ جواب دیا: میں ان کے صلب میں تھا اور انھیں کے ساتھ زمین پر آیا، میں کشتی میں اپنے پدر حضرت نوح (ع) کے صلب میں تھا، جس وقت حضرت ابراہیم (ع) کو نار نمرود میں پھینکا جا رہا تھا میں انھیں کے صلب میں تھا ۔ اسی طرح خداوند عالم ہمیں ایسے پاک صلبوں سے پاک و مطہر رحموں میں منتقل کرتا رہا جو سب کے سب ہادی اور مہدی تھے “28

اسی مضمون کو اہل بیت علماء نے بھی لکھا ہے جیسے متقی ہندی نے کنز العمال میں، اور سیوطی نے درمنثور میں ۔

ب) روایات اہل سنت

1۔ امام ترمذی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ پیغمبر نے فرمایا: بے شک خدا نے انسانوں کو پیدا کیا اور خدا نے مجھے انھیں لوگوں میں سے ایسے لوگوں اور فرقوں میں رکھا جو سب کے سب بہترین اور با فضیلت تھے ۔ قبیلوں کو منتخب کرنے کے بعد مجھے سب سے بہترین قبیلہ میں قرار دیا، اسی طرح اس نے بہترین گھرانے کو چنا پھر مجھے سب سے بہترین گھرانے میں رکھا، لہذا میں نسب اور گھرانے کے اعتبار سے سب سے بہتر ہوں ۔ 29

2۔ قندوزی حنفی طبرانی اپنی سند کے ذریعہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: میں منتخب شدہ اشخاص سے دوسرے منتخب شدہ اشخاص میں یکے بعد دیگرے منتقل ہوتا رہا ۔ 30

3۔ ہیثمی نے اپنی سند کے حوالے سے اس آیت ” وتقلبک فی الساجدین“ کی تفسیر کرتے ہوئے ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر نے فرمایا: میں ایک پیغمبر کی صلب سے دوسرے پیغمبر کی صلب میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ میں خود مبعوث بہ رسالت ہوا ۔ 31

ان لوگوں کی دلیلوں پر تنقید جنھوں نے آباء و اجداد نبی کو غیر مومن بتایا:

جو لوگ پیغمبر کے آباء و اجداد کو مومن نہیں مانتے ہیں انھوں نے بھی کچھ دلیلوں سے تمسک کیا ہے جنھیں ہم ذکر کرنے کے بعد ساتھ ساتھ ان کا بھی جواب دیں گے:

پہلی دلیل

قرآن کریم میں حضرت ابراہیم (ع) کے باپ کو صراحت کے ساتھ کافر بتایا گیا ہے، دلیل کے طور پر قرآن کا یہ جملہ ہے < وما کان استغفار ابراھیم لابیہ الا عن موعدة وعدھا ایاہ فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبروا منہ ان ابراھیم لاواہ حلیم > ابراہیم نے اپنے باپ کے لئے صرف اس وجہ سے طلب مغفرت کی چونکہ وہ ان کو وعدہ دے چکے تھے (لیکن) جب انھیں معلوم ہوگیا کہ وہ دشمن خدا ہے تو ان سے بیزار ہوگئے، بے شک ابراہیم (ع) بہت ہی دلسوز اور برد بار تھے ۔ 32

جواب

پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن نے اس بات پر مورخوں کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ آذر حضرت ابراہیم (ع)کے والد نہیں تھے بلکہ چچا یا نانا تھے، چونکہ (چچا اور نانا کے سلسلہ میں) اختلاف ہے۔33

حضرت ابراہیم (ع) کے حقیقی والد ”تارُخ“ ہیں34 اور لفظ ”اب“ کا استعمال ”چچا“ پر مجازاً اور از باب توسعہ ہے ۔ جیسا کہ خود قرآن کریم میں اس کی نظیر موجود ہے < ام کنتم شہداء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لنبیہ ما تعبدون من بعدی قالوا نعبد الھک والہ آبائک ابراہیم و اسماعیل واسحاق الہھا واحداً ونحن لہ مسلمون> تم اس وقت کہاں تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا اور اپنے بچوں سے کہہ رہے تھے: میرے بعد تم لوگ کس کی عبادت کروگے؟ انھوں نے جواب دیا: آپ اور آپ کے آباء و اجداد ابراہیم و اسماعیل (ع) اور اسحاق کے خدا کی جو کہ وحدہ لاشریک ہے اور ہم اس کے مطیع و فرمانبردار ہیں ۔ اس آیت میں خدا نے اسماعیل (ع) کو یعقوب (ع)کے آباء و اجداد میں شمار کیا گیا ہے جب کہ ان کے آباء میں سے نہیں تھے بلکہ ان کے چچا ہیں ۔ 35

دوسرے یہ کہ ”اب “ اور ”والد“ کے درمیان فرق ہے چونکہ اب کا استعمال مربی، چچا اور دادا کے لئے بھی ہوتا ہے برخلاف والد کے کہ یہ دو لفظ صرف اس بات کے لئے استعمال ہوتا ہے جو واسطہ کے بغیر ہو اسی وجہ سے مذکورہ آیت میں لفظ اب کا استعمال ہوا ہے لیکن سورۂ ابراہیم میں خدا نے حضرت ابراہیم (ع)کے حوالہ سے اس طرح نقل کیا :< ربنا اغفرلی ولوالدی و للمومنین یوم یقوم الحساب > پروردگارا روز محشر مجھے اور میرے والدین کو بخش دینا ۔ 36

دوسری دلیل

مسلم اور دوسروں نے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے پیغمبر سے پوچھا: آپ کے پدر بزرگوار کہاں ہیں ؟ جواب دیا: جہنم میں ۔ وہ جب واپس جانے لگا تو پیغمبر نے اسے بلایا اور فرمایا: بے شک میرے اور تمھارے پدربزرگوار جہنم میں ہیں ۔ 37

جواب

یہ حدیث کئی طرح سے باطل ہے:

پہلی بات تو یہ ہے کہ پیغمبر کے تمام آباء و اجداد مومن تھے اور یہ بات گذشتہ صفحات میں دلیلوں سے ثابت کی جا چکی ہے ۔ دوسری بات تو یہ ہے کہ حماد بن سلمہ نے اس روایت کو ثابت سے انھوں نے انس سے نقل کیا ہے لیکن ”معمر“ نے اسی حدیث کو ثابت سے انھوں نے انس سے ایک دوسری طرح سے نقل کیا ہے جس میں پیغمبر کے والد کو کافر نہیں کہا گیا ہے۔ 38

اہل سنت کے علماء رجال نے صراحت سے لکھا ہے کہ نقل حدیث کے سلسلہ میں ”معمر“ حماد سے زیادہ قوی ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ حماد کے حفظ اور محفوظات کے حوالہ سے لوگوں نے شک کا اظہار کیا ہے ۔بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حماد سے مردی حدیثوں میں غلط باتیں زیادہ ہیں ۔ 39

تیسری بات تو یہ ہے کہ یہی روایت شرط شیخین کے ساتھ سعد بن ابی وقاص سے نقل ہوئی ہے جس کے ذیل میں اس طرح آیا ہے ” حیثما مررت بقبر کافر فبشرہ بالنار “ جب تمھارا گذر کسی کافر کی قبر سے ہو تو اسے جہنم کی بشارت دو ۔ 40

چوتھی بات یہ ہے کہ ہو سکتا ہے اس روایت میں لفظ ”ابی“ سے مراد چچا ابو لہب یا ابوجہل یا دونوں، جیسے چچا ہوں جس طرح قرآن میں حضرت ابراہیم (ع) کے چچا کے لئے لفظ ”اب“ کا استعمال ہوا ہے ۔ 41

ایک سوال اور جواب

بحث کے اختتام میں ایک سوال بیان کر کے اس کا جواب دینا چاہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں بعض لوگ پیغمبر کے آباء و اجداد کو کافر کہنے پر مصر ہیں ؟

جواب: پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد کو کافر ثابت کرنے کی مندرجہ ذیل وجہیں ہو سکتی ہیں:

1۔ حضرت علی (ع) کی دشمنی و عناد کی وجہ سے پیغمبر کے آباء و اجداد میں پیغمبر (ص) کے ساتھ علی (ع) کو شریک کرنا ۔

2۔ بعض لوگ اس بات کو نہیں برداشت کر پاتے ہیں کہ خلفائے بنی امیہ اور دوسروں کے باپ تو کافر ہوں لیکن پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد مومن ہوں ۔ لہذا اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اس عظمت و فضیلت کو پیغمبر (ص) سے سلب کر کے انھیں دوسروں کے مساوی و برابر بنادیں ۔

منبع: شیعہ شناسی و پاسخ بہ شبہات؛ علی اصغر رضوانی، ج 1، ص 252 ۔ 262 ۔ ترجمہ سوال و جواب: نور محمد ثالثی ۔ (گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)




1. تصحیح الاعتقادات، ص۱۱۷.

2. ہمان .

3. اوائل المقالات، ص۵۱.

4. مجمع البیان، ج۳، ص۵۱۶.

5. بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۱۷.

6. مفاتیح الغیب، ج۴، ص۱۰۳.

7. روح المعانی، ج۱۹، ص۱۳۷.

8. النظم المتناثر، ص۲۰۲.

9. بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۲۴، الصحیح من سیرة النبی، ج۲، ص۱۸۶.

10. الصحیح من سیرة النبی ، ج۲، ص۱۸۶.

11. الدرج المنفیہ، ص۱۷.

12. ہمان، ۱۷.

13. کشف الخفاء، ص۶۲.

14. ہمان، ص۶۵.

15. مفاتیح الغیب، ج۴، ص۱۰۳.

16. شعراء (۲۶) آیات ۱۱۸. ۱۱۹

17. تاریخ الخمیس، ج۱، ص۲۳۴و ۲۳۵، البحر المحیط، ج۷، ص۴۷.

18. الدر المنثور، ج۵، ص۹۸.

19. مجمع البیان، ج۴، ص۳۲۲، تفسیر الرازی، ج۲۴، ص۱۷۴، السیرة الحلبیۃ، ج۱، ص۳۰، الدر المنثور، ج ۵، ص۹۸، البحر المحیط، ج۷، ص۴۷، تاریخ الخمیس، ج۱، ص۲۳۴، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۱۷، وغیرہ

20. بقرہ (۲) آیہ ۱۲۸.

21. زخرف (۴۳) آیہ ۲۸.

22. السیرة الحلبیہ، ج۱، ص۴۳. ۶۲، الکامل فی التاریخ، ج۱، ص۲۶۰، و بحار الانوار، ج۵، ص۱۳۰.

23. السیرة الحلبیہ، ج۱، ص۱۸۲، الملل و النحل شہر ستانی، ج۲، ص۲۴۸.

24. سیرہٴ زینی دحلان در حاشیہ سیرۂ حلبیہ، ج۱، ص۶۴، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰.

25. کافی، ج۱، ص۴۴۶، ح۲۱.

26. امالی طوسی، ص۴۹۹، ح۱۰۹۵.

27. نہج البلاغہ، خطبہ ۹۴.

28. تفسیر برہان، ج۳، ص۱۹۲، ح۲.

29. سنن ترمذی، ج۵، ص۵۴۴، ح۳۶۰۷.

30. ینابیع المودہ، ج۱، ص۱۵.

31. مجمع الذوائد، ج۷، ص۸۶.

32. توبہ (۹)آ یت ۱۱۴.

33. السیرة النبویہ، ج۱، ص۳۷.

34. تاریخ الخمیس، ج۱، ص۲۳۵.

35. بقرہ (۲) آیت ۱۳۳.

36. ابراہیم (۱۴) آیت ۴۱.

37. صفۃ الصفوہ بہ نقل از صحیح مسلم، ج۱، ص۱۷۲، الاصابہ، ج۱، ص۳۳۷، عون المعبود، ج۱۲، ص۴۹۴، البدایہ و النہایہ، ج۲، ص۲۸۰، و تاریخ الخمیس، ج۱، ص۲۳۲.

38. السیرة الحلبیہ، ج۱، ص۵۰. ۵۱.

39. ہمان، ج۱، ص۵۱، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۱۲. ۱۵.

40. السیرة الحلبیہ، ج۱، ص۵۱، البدایہ و النہایہ، ج۲، ص۲۸۰، و عبس الرزاق، المصنف، ج۱۰، ص۴۵۴ .

41. توبہ (۹) آیت ۱۱۴.

مقام حسین (ع) سنی مآخذ کی روشنی میں

مقام حسین (ع) سنی مآخذ کی روشنی میں
 
 

محرم وہ مہینہ ہے جس میں حق وباطل کی وہ تاریخی جنگ لڑی گئی جو رہتی دنیا تک آزادی وحریت کے متوالوں کے لئے ظلم وجبر سے مقابلے کی راہ دکھاتی رہے گی۔
حقیت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا
حق وباطل کے اس معرکے میں ایک طرف فرزند رسول جگر گوشہ بتول (ع)حضرت امام حسین (ع)تھے ،تو دوسری طرف ظالم وجابر اور فاسق وفاجر حکمراں یزید پلیدتھا ۔حضرت امام حسین (ع) نے یزید کے خلاف علم جہاد اس لئے بلند کیا کہ اس نے بیت اللہ الحرام اور روضۂ نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کے علاوہ اسلام کی زریں تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہوئے ہر قسم کی براوئیوں کوفروغ دیا ،اورایک بار پر دور جاہلیت کے باطل اقدارکو زندہ کر کے اس دین مبین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی ،جس کی خاطر پیغمبر اکرم نے 23برس تک اذیت وتکلیف برداشت کی تھی ۔ حضرت امام حسین دین اسلام کے وہ محافظ ہیں جنہوں نے اپنے خون مطہر ہ سے اسلام کے درخت کی آبیاری کی ،اسی لئے ایک معاصر عربی ادیب نے کہا ہے:اسلام قیام کے لحاظ سے محمدی ہے اور بقا کے اعتبار سے حسینی مذہب ہے۔ آج ہم اپنے اس پروگرام میں احادیث رسول وسنت نبوی کی روشنی میں اہل سنت کے معتبر ماخذ سے حضرت امام حسین کے اعلی مقام ومنزلت پرروشنی ڈالیں گے۔

مقام حسین (ع) سنی مآخذ کی روشنی میں


محرم وہ مہینہ ہے جس میں حق وباطل کی وہ تاریخی جنگ لڑی گئی جو رہتی دنیا تک آزادی وحریت کے متوالوں کے لئے ظلم وجبر سے مقابلے کی راہ دکھاتی رہے گی۔
حقیت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا
حق وباطل کے اس معرکے میں ایک طرف فرزند رسول جگر گوشہ بتول (ع)حضرت امام حسین (ع)تھے ،تو دوسری طرف ظالم وجابر اور فاسق وفاجر حکمراں یزید پلیدتھا ۔حضرت امام حسین (ع) نے یزید کے خلاف علم جہاد اس لئے بلند کیا کہ اس نے بیت اللہ الحرام اور روضۂ نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کے علاوہ اسلام کی زریں تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہوئے ہر قسم کی براوئیوں کوفروغ دیا ،اورایک بار پر دور جاہلیت کے باطل اقدارکو زندہ کر کے اس دین مبین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی ،جس کی خاطر پیغمبر اکرم نے 23برس تک اذیت وتکلیف برداشت کی تھی ۔ حضرت امام حسین دین اسلام کے وہ محافظ ہیں جنہوں نے اپنے خون مطہر ہ سے اسلام کے درخت کی آبیاری کی ،اسی لئے ایک معاصر عربی ادیب نے کہا ہے:اسلام قیام کے لحاظ سے محمدی ہے اور بقا کے اعتبار سے حسینی مذہب ہے۔ آج ہم اپنے اس پروگرام میں احادیث رسول وسنت نبوی کی روشنی میں اہل سنت کے معتبر ماخذ سے حضرت امام حسین کے اعلی مقام ومنزلت پرروشنی ڈالیں گے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ایک حدیث نقل کی ہے جس کو ان کے علاوہ دیگر اکابرین اہل سنت من جملہ ، ابن ماجہ ، ابو بکر سیوطی ۔ترمزی ، ابن حجر ، حاکم ، ابن عساکر ، ابن اثیر ، حموینی ، نسائی وغیرہ نے بھی مستند حوالوں کے ساتھ حضور اکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :الحسن ولحسین سیدا شبا ب اہل الجنۃ’’ حسن وحسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔
اس حدیث کے راویوں میں حضرت علی کے علاوہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل ہیں ،جن میں حضرت عمر وابو بکر ، ابن مسعود ، حذیفہ ، جابر بن عبداللہ ، عبد اللہ بن عمر ، قرہ ، مالک بن الحویرث بریدہ ، ابو سعید خذری ، ابوہریرہ ، انس ، اسامہ اور براء قابل ذکر ہیں۔
حضرت امام حسین کے بارے میں پیغمبر اکرم کی ایک اور مشہور حدیث ہے:
’’حسین منی وانا من حسین ‘‘(حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں)
اس حدیث میں آپ کے ساتھ امام حسین کے خونی رشتے کے علاوہ دونوں بستیوں کے روحانی اور معنوی روابط کی صراحت ملتی ہے، جس کی تعبیر یہ ہے کہ دین اسلام جس کی بنیا د رسول خدا د نے رکھی تھی ، اس کا تحفظ حضرت امام حسین نے کیا۔ اس حدیث کو شیعہ مآخذ کے علاوہ تواتر کے ساتھ سنی مآخذ میں بیان کیاگیا ہے ،اور بعض مآخذ میں اس جملے کے ساتھ دیگر جملے بھی نقل کئے گئے ہیں ،جن میں حضرت امام حسین کے ساتھ حضور اکرم ﷺکی شدید محبت کا اظہار ہوتا ہے ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے حسین سے محبت کی ،اس نے اللہ سے محبت کی ‘‘نیز فرمایا ہے:خدایا جس نے ان دونوں حسنین سے دشمنی کی میں بھی اس کا دشمن ہوں، بعض سنی مآخذ میں ایسے الفاظ بھی اس حدیث کے ساتھ نقل کئے گئے ہیں۔ جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ان لوگوں سے صلح وآشتی چاہتے ہیں جو حضرات حسنین کریمین کے ساتھ امن وسلامتی سے رہیں ،اور ان کے ساتھ آپ نے جنگ کا اعلان کیا ہے ،جو حسنین کے ساتھ جنگ وجدال کے لئے آمادہ ہوتے ہیں۔‘‘حسین مجھ سے ہے ،اور میں حسین سے ہوں‘‘والی حدیث کو نقل کرنے والے سنی اکابرین میں ابن ماجہ ، ترمزی ، ابوہریرہ ، نسائی ، ابن اثیر ، سیوطی ، امام احمد بن حنبل اور طبر ی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت امام حسین کی عظمت اور پیغمبر اکرم کی ان سے فرط محبت کا اندازہ ابو ہریرہ کی اس روایت سے بھی کر سکتے ہیں۔ ابن عبد البر قرطبی نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:’’میںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے سنا ہے ،کہ پیغمبر اکرم امام حسین کے دونوں ہاتھوں کو تھامے ہوئے تھے۔ اور امام حسین کے دونوں پاؤں پیغمبر اکرم کے پاؤںپرتھے ، آپ نے فرمایا :اوپر آمیر ا بیٹا، امام حسین اوپر چلے گئے ،اور آپ نے سینہ پیغمبر پر پاؤں رکھا ، اس وقت آپ نے فرمایا :حسین منہ کھولو ، اس کے بعد حضور نے امام نے حسین کو چوما اورفرمایا :پروردگار اس سے محبت کر ، اس لئے کہ میں اس کو چاہتا ہوں، اہل سنت کے مآخذ اور مشہور سنی محدثین ومؤ رخین کی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حسنین سے دوستی مومنین پر فرض ہے اوران سے محبت کے بغیر کسی سخص کا ایمان کامل نہیں ہوتا، اور ان سے مقابلہ کرنے والا یا بغض رکھنے والا ان مآخذ کی روشنی میں خدا اور رسول خدا کا دشمن قرار پاتا ہے۔ ترمزی ، ابن ماجہ ، ابن حضر ، امام احمد بن حنبل ، حاکم ، ابوبکر سیوطی ، ابو سعید خدری ، سبط ان الجوزی ، عباس خلیفہ ہارون الرشید ، مؤ رخ طبری حضرات وغیرہ نے عبداللہ بن عمر ،یعلی بن مرہ ، سلمان فارسی وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے ایسی احادیث نقل کی ہیں ،جن کا مفہوم یہ ہے کہ حضور نے ان لوگوں سے محبت ودوستی کا اظہار فرمایا ہے جو حسنین کریمین سے محبت ودوستی رکھتے ہیں ،اور ان لوگوںکے ساتھ نفرت وعناد کا اعلان فرمایا ہے ،جو امام حسن وامام حسین سے دشمنی رکھتے اور بغض کا اظہار کرتے ہیں۔ نیز ان احادیث میںان لوگوں کے لئے جنت نعیم کی بشارت دی گئی ہے جو حسنین سے محبت کرتے ہیں ،اور ان لوگوں کے جہنم واصل ہونے کی خبر دی گئی ہے جو ان دونوں سے بغض وعناد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے بعض حوالوں میں حضرت حسین کے ماں باپ کا بھی ذکر ہے اور یہ ارشاد نبوی نقل کیا گیاہے کہ ’’جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں (حسنین )اور ان کے ماں باپ سے محبت کی ، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے برابر مقام پائے گا۔ ‘‘ان مفاہیم کی حامل احادیث میں ایک وہ حدیث بھی شامل ہے جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر ہیں اور اس کوابن عبد البر ، ابو حاتم اور محب طبری نے روایت کی ہے ۔ حدیث میںکہا گیا ہے کہ حضور نے امام حسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
من احبنی فلیحب ہذین(جس نے مجھ سے محبت کی، اسکو چاہئے کہ ان دونوں سے بھی محبت کرے)
مذکورہ احادیث نبوی کی روشنی میںیہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اہل بیت رسول کے ساتھ دشمنی رسول خدا کے ساتھ دشمنی کے متردف ہے ،اور ان سے محبت کا مطلب خدا ورسو ل سے چاہت کا اظہار ہے۔ ان احادیث کے مفاہیم کوایمان کے اصول وشرائط کے تحت پرکھنا چاہئے ،کیوںکہ تکمیل ایمان کی شرط عشق رسول ہے، جس کے بغیر مسلمان اخروی فلاح نہیں پا سکتا چنانچہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں۔
اسی طرح آل محمد سے عشق ومحبت کے بغیر عشق رسول ادھورا ہے ،جس کا مقصد ایمان میں نقص ہے، لیکن کربلا میں یزید لعین نے ہزاروں افراد کا لشکر بھیج کر ، نہ صرف اہل بیت رسول کی توہین کی، بلکہ رسول اللہ کے اس نواسے کو بے دردی سے شہید کیا،جس کی محبت کو پیغمبر اسلام نے امت پر فرض قرار دیا تھا ،ہم محرم الحرام اور عزاداری حسین کے ساتھ ان ایام میں مسلمان عالم کے علاوہ حق وحقیقت او رحریت وآزادی کے علمبر دار وں کو تسلیت پیش کرتے ہیں۔

السلام علیک یا امام جعفر صادق (ع)

السلام علیک یا امام جعفر صادق (ع)

مشخصات حضرت
  اسم : جعفر
  لقبها : صادق- مصدق - محقق - کاشف الحقایق - فاضل - طاهر - قائم - منجی - صابر
 کنیه : ابوعبدالله - ابواسماعیل - ابوموسی
  نام پدر : حضرت امام محمد باقر ( علیه السلام )
  نام مادر : فاطمه ( ام فروه ) دختر قاسم بن محمد بن ابی بکر
  زمان تولد : هفدهم ربیع الاول سال 83 هجری
  در روز جمعه یا دوشنبه ( بنا بر اختلاف ) در هنگام طلوع فجر مصادف با میلاد حضرت رسول . بعضی ولادت ایشان را روز سه شنبه هفتم رمضان و سال ولادت ایشان  را نیز برخی سال 80 هجری ذکر کرده اند . ( 1 )
  محل تولد : مدینه منوره
  عمر شریفش : 65 سال
  مدت امامت : 34 سال
  زمان رحلت ( شهادت ) : 25 شوال سال 148 هجری درباره زمان شهادت نیز گروهی ماه شوال و دسته ای دیگر 25 رجب را بیان کردند . ( 2 )
  قاتل : منصور دوانیقی بوسیله زهر
محل دفن : قبرستان بقیع
زنان معروف حضرت : حمیده دختر صاعد مغربی ، فاطمه دختر حسین بن علی بن الحسین بن علی بن أبی طالب( علیهم السلام )
فرزندان پسر : موسی ( علیه السلام ) - اسماعیل - عبدالله - افطح - اسحاق - محمد - عباس - علی
فرزندان دختر : ام فروه - فاطمه - اسما که اسماعیل ، عبدالله وام فروه مادرشان فاطمه دختر حسین بن علی بن حسین ( علیهما السلام )( نوه امام سجاد ) است . وامام موسی کاظم (علیه السلام) ، اسحاق و محمد که مادرشان حمیده خاتون می باشد . وعباس ، علی ، اسماء و فاطمه که هر یک از مادری به دنیا آمده اند .
نقش روی انگشتر حضرت : ما شاء الله لا قوة إلا بالله ، أستغفرالله .
اصحاب معروف امام صادق (علیه السلام) : ابان بن تغلب - اسحاق بن عمار- برید - صفوان بن مهران - ابوحمزه ثمالی – حریر بن عبدالله سجستانی زراره بن اعین شیبانی - عبدالله بن ابی یعفور-عمران بن عبدالله اشعری قمی .
روز زیارت ایشان : روزهای سه شنبه می باشد .
رخسار حضرت : بیشتر شمایل آن حضرت مثل پدرشان امام باقر (علیه السلام) بود . جز آنکه کمی لاغرتر و بلند تر بودند .
مردی میانه بالا ، سفید روی ، پیچیده موی و پیوسته صورتشان چون آفتاب می درخشید . در جوانی موهای سرشان سیاه و در پیری سفیدی موی سرشان بر وقار و هیبتشان افزوده بود . بینی اش کشیده و وسط آن اندکی برآمده بود وبر گونه راستش خال سیاه رنگی داشت .
ریش مبارک آن جناب نه زیاد پرپشت و نه زیاد کم پشت بود . دندانهایش درشت و سفید بود ومیان دو دندان
پیشین آن گرامی فاصله وجود داشت . بسیار لبخند می زد و چون نام پیامبر برده می شد رنگ از رخسارش تغییر می کرد .

گوشه ای از حیات امام صادق ( علیه السلام )

پدرش 26 ساله بود که او زاده شد . دوازده تا 15 سال بنابر اختلاف از عمر شریفش را درکنار جدش امام سجاد ( علیه السلام ) و نوزده سال را در کنار پدرش امام باقر ( علیه السلام ) گذراند .
پیامبر اکرم ( ص ) در خصوص انتخاب نام و لقب امام ششم فرموده است: وقتی که فرزندم جعفر متولد شد نام اورا صادق بگذارید زیرا فرزند پنجمش جعفراست وادعای امامت می کند و او در نظر خداوند جعفر کذاب است .
ابن بابویه و قطب راوندی روایت کرده اند : که از حضرت امام زین العابدین (علیه السلام) پرسیدند که امام بعد از تو کیست ؟
فرمود : محمد باقر شکافنده علوم است . پرسیدند که : بعد از اوامام که خواهد بود ؟ گفت : جعفر که نام اونزد اهل آسمانها صادق است.امام ششم شیعیان و رئیس مذهب تشیع درسال 114 هجری قمری در سن 31 سالگی به امامت رسید و ردای ولایت بردوش گرفت.
دوران امامت آن امام 34 سال بوده که با اواخر حکومت امویان واوایل حکومت عباسیان مصادف می باشد .
که حدود هجده سال آن ( 132-114 ) همزمان با حکومت امویان و شانزده سال آن ( 148-132 ة ) همزمان با حکومت عباسیان بود .
آن حضرت با پنج تن از خلفای بنی امیه - هشام بن عبدالملی ( 125-105 ه. ق ) ، ولید بن یزید بن عبدالملی ( 126-125 ه. ق ) ، یزید بن ولید بن عبدالملی ( 126 ه. ق ) ، ابراهیم بن ولید (126 ه. ق"( به مدت 70 روز )) و مروان بن محمد ملقب به حمار ( 132-126 ه.ق ) و دو تن از خلفای بنی عباس ابوالعباس ( عبدالله بن محمد ) معروف به سفاح ( 132- 136 ( 137 ) ه. ق ) و ابوجعفر معروف به منصور دوانیقی ( 158-136 ( 137 ) ه. ق ) معاصر بود .
در یک دسته بندی ، زندگانی امام جعفر صادق ( علیه السلام ) می توان به سه دسته کلی تقسیم نمود :
الف - زندگانی امام در دوره امام سجاد و امام باقر ( علیهما السلام ) که تقریبا نیمی از مر حضرت را به خود اختصاص می دهد . در این دوره ( 83-114 ) امام صادق ( علیه السلام ) از علم و تقوی و کمال و فضیلت آنان در حد کافی بهره مند شد .
ب - قسمت دوم زندگی امام جعفر صادق( علیه السلام ) ازسال 114 هجری تا 140 هجری می باشد . دراین دوره امام از فرصت مناسبی که بوجود آمده ، استفاده نمود و مکتب جعفری را به تکامل رساند . در این مدت ، 4000 دانشمند تحویل جامعه داد و علوم و فنون بسیاری را که جامعه آن روز تشنه آن بود ، به جامعه اسلامی ارزانی داشت .
ج - هشت سال آخرامام( علیه السلام ) قسمت سوم زندگی امام را تشکیل می دهد . دراین دوره ، امام بسیار تحت فشار و اختناق حکومت منصور عباسی قرار داشت . در این دوره امام دائما تحت نظر بود و مکتب جعفری عملا تعطیل گردید .