المرتضی فاونڈیشن

ایک دینی، فرهنگی، و فلاحی اداره

المرتضی فاونڈیشن

ایک دینی، فرهنگی، و فلاحی اداره

نبی اکرمکامیاب مدیریت کے لئے نمونہ عمل
تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین محمد رضا مصطفی پور
از پاسدارِ اسلام
ترجمہ: سجاد مہدوی

مقدمہ:
انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مدیریت (Management) ایک اہم اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر انسانی زندگی پر صحیح مدیریت کا غلبہ نہ ہو تو سرمائے تباہ و برباد ہو جائیں گے اور صلاحیتیں اجاگر نہ ہوں گی اور پھر سرمائے کی تباہی اور استعداد کے اجاگر نہ ہونے سے انسان اور معاشرہ تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔ جب کہ اگر صحیح اور مفید مدیریت (Manamement) معاشرے پر محیط ہو تو صلاحیتیں منصہ ظہور پر آتی ہیں اور انسان کا مادی و معنوی سرمایہ ہر طرح کی ترقی و کمال اور رشد و تکامل کی جانب بڑھنا شروع کر دیتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ایجادات اور نت نئے امور سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔
وہی شخص ایک کارآمد، خلاق اور اندرونی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے والا مدیر ثابت ہو سکتا ہے جو تین خوبیوں کا مالک ہو: نظریہ سے اخلاص و وفاداری، مہارت اور تجربہ۔ اگر کوئی مدیر ان میں سے کسی ایک سے بھی بے بہرہ ہو، وہ کامیاب مدیر ثابت نہیں ہوگا۔
اسلامی تعلیمات میں بھی ایک مدیر کی شرائط پر خاص توجہ مبذول کی گئی ہے اور اس کے لئے نمونے بھی معین کئے گئے ہیں تاکہ جو لوگ سوسائٹی کی مدیریت کی ذمہ داری سنبھالنا چاہتے ہیں وہ ان شرائط و حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان نمونہ عمل افراد (Role Models) کی پیروی کریں۔
ہم اس مقالے میں نبی اکرم ۰ کو کامیاب مدیر کے لئے نمونہ عمل کے طور پر متعارف کرائیں گے۔ یعنی ایک ایسا انسان کہ جس نے آکر ایسے معاشرے میں کہ جہاں کی خصوصیت ہی جہالت اور نادانی تھی، ایسا انقلاب برپا کردیا کہ وہاں کے تمام وسائل ایک عظیم تمدن کی تشکیل اور سوسائٹی کی ترقی میں استعمال ہونے لگے۔ بقولِ امیر المومنین علیٴ بن ابیطالبٴ جو لوگ اس دو رمیں بدترین دین کے پیروکار اور بدترین سرزمین پر مقیم تھے، سخت پتھروں اور بہرے سانپوں کے درمیان، آلودہ پانی پیا کرتے، ناگوار خوراک پر تکیہ کرتے، ایک دوسرے کا خون بہایا کرتے، رشتوں ناتوں کو توڑ دیتے تھے اور ان درمیان بت برپا تھے اور وہ پوری طرح گناہوں کی دلدل میں غرق تھے۔ لیکن بعثت رسول۰ کے بعد آپ۰ نے ان کی ہدایت کر کے انہیں گمراہی سے نکالا اور اپنے مقام کے ذریعے انہیں جہالت سے نجات دی۔
ہم اس نکتے پر پانچ حصوں میں گفتگو کریں گے:

١۔ ایک فکری مکتب کی خصوصیت:
ہر فکری اور دینی مکتب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے پیروکاروں اور چاہنے والوں کے درمیان نفوذ پیدا کرنے اور مستحکم و ناقابلِ شکست بننے کے لئے دو خصوصیات کا حامل ہو:
اول: صحیح اور ناقابلِ تردید تعلیمات، مستحکم و عقل پر مبنی عقائد اور ایسے اصول جس پر کوئی اعتراض نہ ہوسکے تاکہ دوسرے نظریات و مکاتب کا مقابلہ کر سکے اور ان پر غلبہ پا سکے۔ دوسرے الفاظ میں اس مکتب فکر اور دین کو دو بنیادوں پر استوار ہونا پڑے گا: ایک تو یہ کہ اس میں ایسے عقائد اور تصورِ کائنات کے ایسے اصول ہونے چاہئیں جن کی حمایت اور دفاع عقل اور منطق کے ذریعے کیا جاسکے اور دوسرے یہ کہ ایسا پروگرام اور ایسے احکامات ہوں جو فطرت کے ساتھ مطابقت رکھیں اور سوسائٹی کے افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر اور ان کی ضروریات کو پورا کریں۔
دوم: ایسے نمونہ عمل (رول ماڈل) موجود ہوں جو ان اصولوں اور اقدار کا مظہر بن جائیں اور ان کو منصہ ظہور پر اس طرح پیش کریں کہ ہر انسان اس مکتب کو ان لوگوں کی سیرت و کردار میں تلاش کرسکے۔ یعنی ایسے انسان جن کی شخصیت کا ہر پہلو اور ان کی ہر خاصیت نے اسی مکتب کے زیرِ سایہ پرورش پائی ہو۔
درحقیقت یہ گروہ ایک مکتب کے سرفہرست افراد ہوتے ہیں جن کا سرتاپا وجود اور ان کی پوری زندگی اس مکتب کی حقانیت اور تعلیمات کی سچائی کی دلیل شمار ہوتی ہے۔ لوگ جب اس قسم کے افراد کو دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں معارف دین کے زیر سایہ عظمت و کمال کی بلندیوں کو سر کیا ہو تو وہ ان اعتقادات اور تعلیمات کی سچائی کا ادراک کر لیتے ہیں اور اس مکتبِ فکر کو قبول کرنے کے لئے ان کے اندر رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔

٢۔ انبیائ رول ماڈل ہیں:
انبیائ کی شخصیات راہِ حقیقت کے راہیوں کے لئے مفید نمونہ عمل ہیں نیز جو عقائد دین نے سکھائے ہیں اور جس عمل کی جانب رہنمائی کی ہے اور وہ آسمانی پیغامات جو نبوت کا نتیجہ ہیں، یہ انبیائ ان سب کی سچائی کی دلیل ہیں۔ خدا نے انسانوں کی ہدایت کے حوالے سے اتمامِ حجت کے لئے ایسے رسولوں کو بھیجا ہے جو اللہ کا پیغام پہنچانے کے علاوہ خود بھی حجت، نمونہ عمل اور لوگوں پر گواہ بن جائیں اور عملی طور پر اپنی تعلیمات کی سچائی کا ثبوت دیں۔
قرآن مجید میں ہے: رُسُلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علی اللّٰہ حجۃ بعد الرُسل۔ (یعنی دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لئے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے۔ سورہ نسائ ١٦٥) کیونکہ یہ انبیائ اس مکتب کا کامل نمونہ اور منزل تک پہنچے ہوئے انسان تھے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان انبیائ کا انتخاب اس عنوان سے کیا ہے کہ وہ دین کا مجسم نمونہ ہیں اور ان کی اہم ترین خصوصیت ان کا بشر ہونا ہے تاکہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ہم آہنگی ہو اور انسانی رجحانات اور خصوصیات بھی پائی جائیں تاکہ انبیائ اور ان کے ماننے والوں کے درمیان ایک گہرا تعلق برقرار ہوجائے۔ اسی لئے انبیائ کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے جیسے بشر ہیں۔ قالت رسلہم ان نحن الا بشر مثلکم۔ (ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم تم جیسے بشر کے سوا کچھ اور نہیں ہیں) نیز آنحضور۰ نے بھی فرمایا: قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الیّ۔ (یعنی کہہ دیجئے! میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے۔ سورہ کہف ١١٠) اسی لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ۔ (بتحقیق تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمو نہ ہے۔ سورہ احزاب ٢١)
جیسا کہ دینِ اسلام ایک جامع دین ہے اور انسانی زندگی کے تمام ۔۔ معنوی، مادی، انفرادی اجتماعی، جسمانی، روحانی، دنیوی، اخروی، عقلی، عاطفی اور جذباتی ۔۔ پہلووں پر پوری توجہ دیتا ہے ، لہذا جن افراد کو نمونہ کے طو رپر پیش کرتا ہے وہ بھی جامع ہونے چاہئیں اور انفرادی و اجتماعی اور دوسرے تمام اعتبارات سے اپنے کردار و نظریات، اطوار و عادات، عقیدہ و تعلقات اور تمام حرکات و سکنات میں ممتاز اور صاحبِ کمال ہونا چاہئے تاکہ کمال کی جستجو رکھنے والے انسانوں کو اپنی جانب مائل اور ان کی ہدایت کر سکے۔

٣۔ نمونہ عمل (رول ماڈل) کی ضرورت:
انسانی زندگی میں نمونہ عمل کا ہونا مختلف مقاصد و اہداف کے تحت ضروری ہے۔ اور اس کے دلائل یہ ہیں:
الف: ان کے ذریعے سے حقیقت کی پہچان:
انسان کے رشد و کمال میں راہِ کمال کی شناخت اور اس کا حصول بہت اہم ہے۔
دینی مکاتب کے تربیت یافتہ افراد کو برتر اور کامل تر نمونہ عمل قرار دینا وہ بنیادی ترین عامل ہے جو انسان کی تربیت اور اس کی ہدایت میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔
کیونکہ یہ افراد کمال کی وہ راہیں طے کر چکے ہوتے ہیں اور ان حدود تک پہنچ چکے ہوتے ہیں جو بطورِ نمونہ قرار پانے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ انہوں نے کمال کے کچھ مراحل گذار لئے ہوتے ہیں اور نیک صفات سے مزین ہو جاتے ہیں۔ اب کمال کی جستجو کے لئے آبلہ پائی کرنے والے کو اپنے اندرونی یا بیرونی محرک کے تحت ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہوتا ہے اور ان کی طرح سے کمال کی راہ پر گامزن ہونا ہوتا ہے۔
انبیائ علیہم السلام کی ہدایت و رہنمائی کا زیادہ تر تعلق ان کے نمونہ عمل بننے کے اعتبار سے ہی ہے۔ یعنی انبیائے الہی خدا کی عنایت اور اپنے عاشقانہ سیر و سلوک کے ذریعے اپنی ایک خدائی صفات کا مظہر انسان بن جاتے ہیں جو نیک صفات اور اخلاقی فضائل سے آراستہ ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جس کے بعد دوسرے انسان زندگی کے تمام پہلووں میں اپنے عمل کے لئے ان کے کردار کو سامنے رکھتے ہیں اور ان کے نقشِ پا پر قدم رکھتے ہیں۔
ب: رشد و تربیت کے صحیح معیار:
درست پرورش کے لئے رشد و تربیت کے صحیح معیارات کا ہونا لازمی امر ہے۔ یہ معیارات جو کہ عمل کی پہچان کے لئے میزان اور کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، کبھی وجودی ہوتے ہیں اور کبھی ذہنی۔ نمونہ عمل بننے والے افراد عقیدتی اور اخلاقی اصولوں کی تعلیم دیتے وقت ذہنی معیار فراہم کرتے ہیں اور اپنے عمل کے ذریعے وجودی معیار بھی دکھا دیتے ہیں۔
یہ رول ماڈل حضرات انسان کی پاکیزہ اور آلودہ صفات کو پرکھنے کے لئے ایک معیار ہیں اور ہر انسان ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو پیش کر کے مثبت یا منفی عمل اور اچھے یا برے اخلاق و فضائل کو پرکھ سکتا ہے۔
ج: انسان کے لئے عاملِ تحرک:
سوسائٹی کے اندر کسی اسوہ (رول ماڈل) کا وجود دوسرے لوگوں کے لئے اور راستے میں ٹھہر جانے والے کمزوروں کے لئے سرمایہ امید ہوتا ہے۔ جب ایک غافل انسان اپنی تمام توانائیوں، استعدادوں اور روح کے اندر انرجی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو چھوڑ کر گوشہ گیر ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی حرکت اور جستجو سے بیگانہ ہو جاتا ہے تو اس کے اندر حرکت اور جنبش پیدا کرنے کے لئے نمونہ عمل لوگوں کو اس کے سامنے پیش کرنا موثر ترین عامل بن سکتا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ رہبر و رہنما کا وجود ہی انسان کو خوداعتمادی، بلند پروازی، طاقت، عاقبت اندیشی اور شوق و اشتیاق دیتا ہے۔
قرآن کریم اور دوسرے اسلامی مآخذ نے بھی تحرک پیدا کرنے کے لئے اسوہ (رول ماڈل) کی تاثیر پر توجہ دی ہے اور متعدد طریقوں سے لوگوں کو ان نمونہ عمل افراد کی پیروی کی دعوت دی ہے اور سوسائٹی میں ایسے افراد کے وجود کو نیک کاموں کی جانب رجحان اور ان کے اقتدار کا سبب قرار دیا ہے: ’’و لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اللّٰہ و الیوم الاٰخِر و ذکر اللّٰہ کثیراً‘‘۔
ترجمہ: بتحقیق تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور روزِ آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ (سورہ احزاب ٢١)
د: انحرافات کی روک تھام :
اسوہ (رول ماڈل) اور نمونہ عمل افراد کو پیش کرنا جرائم اور انحرافات کو روکنے کے لئے بھی بہت موثر اور مفید ہے۔ کیونکہ انسان اپنی سوسائٹی، تہذیب و تمدن اور تاریخ میں برائیوں سے آلودہ افراد کی ذلت و خواری اور پاکیزہ افراد کی عزت و محبوبیت کو دیکھتا ہے، تو ان نیک اور پاکیزہ لوگوں کی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ان کو اپنے عمل کے لئے رول ماڈل کی حیثیت سے قبول کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ پاکیزہ افکار اور نیک اعمال کی انجام دہی میں کامیاب اور برائی اور برے لوگوں سے متنفر ہو جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسانی رول ماڈل اور نیک و صالح اسوہ عمل کی نشاندہی سے صداقت، امانت، اخلاقی پاکیزگی اور انسانیت جیسے پہلووں میں اضافہ ہوتا ہے جس سے انحرافات اور برائیوں سے مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

٤۔ رول ماڈل کی روحانی اور عملی خصوصیات:
جو رول ماڈل سوسائٹی میں نفوذ پیدا کرتے ہیں وہ کچھ ایسی خصوصیات سے بہرہ مند ہوتے ہیں جن کے ذریعے گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ ان خصوصیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
الف: اندرونی خصوصیات:
وہ خصوصیات جن کا تعلق دل سے، نظریات و افکار سے اور انسان کے اندر سے ہے ، وہ علمی اور روحانی حالات ہیں:
( i) علم و بصیرت:
ایک رول ماڈل کے لئے اہم ترین اندرونی خصوصیت ضروری علم و بصیرت کا موجود ہونا ہے۔ چنانچہ خداوند متعال رسولِ اکرم ۰ سے فرماتا ہے: قل ھٰذہ سبیلی ادعوا الی اللّٰہ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی‘‘ (یعنی کہہ دیجئے یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار، پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ سورہ یوسف ١٠٨)

امام جعفر صادق علیہ السلامتحریر: طیبہ چراغی

امام جعفر صادقٴ ١٧ ربیع الاول ٨٣ ھ کو مدینہ میں متولد ہوئے اور ٦٥ سال کی عمر میں ١٥ یا ٢٥ شوال ١٤٨ ہجری کو مدینہ میں شہید ہوئے۔ آپٴ نے پچاس سال بنو امیہ کی حکومت کے آخری دور میں اور پندرہ سال بنوعباس کی حکومت کے ابتدائی دور میں گذارے۔ علمی عظمت، بے کراں زہد، بے نظیر عبادت، عالمِ اسلام کی مصلحت پر نگاہ، مذہبِ تشیع کی حیثیت کا دفاع اور لوگوں کی ہدایت امامٴ کی برجستہ خوبیاں شمار کی جاسکتی ہیں۔ آپٴ کی امامت کے زمانہ میں ثقافتی صورتحال بہت گمبھیر تھی۔ متعدد فرقے اور طرح طرح کے مذہب آپس میں ایک ساتھ زندگی گزار رہے تھے اور ہر کوئی اپنی سچائی کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ امام جعفر صادقٴ نے متعدد بار ان کے رہنماوں سے مناظرے کئے اور متعدد شاگردوں کی تربیت کر کے مذہب تشیع کی حقانیت کو ثابت کیا۔ انہوں نے علمی یونیورسٹی قائم کر کے شیعہ علوم و معارف کو فروغ دیا۔ اس مقالے میں امامٴ کی زندگی کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا جائے گا۔
٭¥٭¥٭
امامت کا اعلان:
امام زین العابدین علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آپٴ کے بعد امامٴ کون ہے؟ تو فرمایا: محمد باقرٴ جو علم کو پھیلائیں گے۔
پھر پوچھا کہ ان کے بعد امام کون ہوگا؟ تو جواب دیا: جعفر، کہ اہلِ آسمان کے نزدیک ان کا نام صادق ہے۔
حاضرین حیران ہوکر کہنے لگے: ’’آپ تو سب سچے اور صادق ہیں؛ انہیں کیوں خصوصیت سے یہ نام دیا گیا ہے؟‘‘ امام سجادٴ نے رسولِ اکرم ۰ کے ایک فرمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’میرے بابا نے رسولِ خدا سے نقل کیا ہے کہ جب میرا بیٹا جعفر بن محمد بن علی بن حسین علیہم السلام متولد ہو تو اس کا نام صادق رکھنا۔ کیونکہ اس کی نسل کا پانچواں بیٹا بھی جعفر ہوگا۔ وہ خدا پر جھوٹ باندھتے ہوئے امامت کا دعویٰ کرے گا۔ وہ خدا کے نزدیک جعفر کذاب اور خدا پر افترا باندھنے والا ہے۔‘‘
اللہ کا یہ وعدہ ١٧ ربیع الاول ٨٣ ہجری کو پورا ہوا اور نبی پاک ۰ کے خاندان میں ایک پاکیزہ بچے نے دنیا میں آنکھیں کھولیں۔
امام صادقٴ کی سیاسی و اجتماعی زندگی
امام صادقٴ کے دور کی خصوصیت:
چھٹے امامٴ کی زندگی کا دور مروانی اور عباسی حکومتوں کے زمانے میں تھا۔ اس زمانے میں مختلف قسم کی سختیاں آپٴ پر روا رکھی جاتی تھیں اور متعدد بار آپٴ کو بے جرم و خطا جلاوطن کیا گیا۔ چنانچہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اس زمانے کے حکمرانوں کے پاس آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے امامٴ کو تکلیف پہنچانے کی فرصت نہیں تھی اور آپٴ پورے اطمینان کے ساتھ علمی تحریک کی رہنمائی میں مصروف تھے، یہ بات بطورِ مطلق قابلِ قبول نہیں ہے۔ بلکہ امام صادقٴ اموی اور عباسی خلفائ کی جانب سے وقتاً فوقتاً پہنچائی جانے والی اذیتوں کے باوجود مناسب موقعوں سے فائدہ اٹھا کر علمی تحریک کو فروغ دیتے رہے ۔ علمی جدوجہد کی اصل وجہ یہ تھی کہ جہاد و منفی جدوجہد کے دوسرے راستے مسدود تھے۔ اسی لئے امامٴ تقیہ کرنے پر بھی مجبور ہوگئے تھے۔ کیونکہ خلفائ اس موقع کی تلاش میں تھے کہ معمولی سا بہانہ ڈھونڈھ کر امامٴ کو راستے سے ہٹا دیں۔ چنانچہ عباسی خلیفہ، منصور کہتا ہے: ’’جعفر بن محمد (علیہ السلام) میرے گلے میں ہڈی کی طرح سے (پھنس گئے) ہیں کہ نہ میں نگل سکتا ہوں اور نہ اُگل سکتا ہوں۔‘‘
امام جعفر صادقٴ کا دورِ امامت:
بطورِ کلی، حضرت علیٴ سے لے کر گیارہویں امام، حضرت امام حسن عسکریٴ تک کے ائمہ طاہرین کے ادوار کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
١۔ خانہ نشینی کا دور یعنی ٢٥ سال کی وہ مدت کہ جب امیر المومنینٴ رحلت نبی اکرم۰ کے بعد سے گھر میں تھے۔
٢۔ امام کا مسندِ اقتدار پر متمکن ہونا کہ جس میں چار سال اور نو ماہ کی امام علیٴ کی حکومت اور امام حسنٴ کی خلافت کے چند سال شامل ہیں۔
٣۔ صلحِ امام حسنٴ اور شہادت امام حسینٴ تک کا دور۔
٤۔ ظالم حکمرانوں کی جانب سے انتہائی سختیوں اور جلاوطنیوں کا دور ۔ اس میں چوتھے امامٴ سے گیارہویں امامٴ تک کا زمانہ شامل ہے۔
امام جعفر صادقٴ کی زندگی کو بہتر طور پر جاننے کے لئے ائمہ کے زمانے کے اس آخری دور کا بغور جائزہ لینا چاہئے جس کا آغاز امام حسینٴ کی شہادت سے ہوا تھا۔ اس دور میں ائمہ طاہرینٴ کی پوری کوشش یہ تھی کہ بنیادی کام کرتے ہوئے خود غرض صاحبانِ اقتدار اور جاہل صاحبانِ فکر کی جانب سے اسلام کے اصلی راستے میں پیدا کئے جانے والے انحرافات کا مقابلہ کریں اور حکومتِ اسلامی کی تشکیل، احیائے قرآن و سنت اور نظامِ علوی کے نفاذ کے لئے طویل منصوبہ کے تحت کام کا آغاز کریں۔
امام صادقٴ کی علمی اور ثقافتی تحریک
١۔ راویوں کی تربیت:
طویل مدت تک نقلِ احادیث پر پابندی کی وجہ سے احادیث نبی اکرم۰ اور روایاتِ اہلِ بیتٴ کو نقل کرنے کی شدید ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ چنانچہ امام صادقٴ نے مختلف حوالوں سے راویوں کی تربیت کا سلسلہ شروع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ چھٹے امامٴ سے ہر موضوع پر حدیث روایت ہوئی ہے اور مذہبِ تشیع کو مذہبِ جعفری کہنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ یہ راوی مختلف علوم میں ہزاروں احادیث یاد کر کے فکری انحراف کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ امام جعفر صادقٴ فرماتے تھے: ’’ابان بن تغلب نے مجھ سے تیس ہزار حدیثیں روایت کی ہیں، تم انہیں دوسروں کے لئے روایت کر سکتے ہو۔‘‘ محمد بن مسلم نے سولہ ہزار حدیثیں امامٴ سے سیکھیں۔ حسن بن وشّائ کہتا ہے:
’’میں نے مسجدِ کوفہ میں نو سو راویوں کو دیکھا جو سب یہ کہتے تھے : جعفر بن محمدٴ نے مجھ سے یوں فرمایا۔‘‘
اتنی بڑی تعداد میں راویوں کی پرورش سے مختلف زمانوں میں سرچشمہ امامت سے روایت کرنے والوں کی کمی خاصی حد تک دور ہوگئی۔
٢۔ شاگردوں کی تربیت:
امام جعفر صادقٴ نے شاگردوں کی تربیت بھی کی تاکہ وہ دینی شبہات کا جواب دے سکیں۔ ہشام بن حکم، ہشام بن سالم، مومن الطاق، محمد بن نعمان، حمران بن اعین وغیرہ ایسے ہی شاگرد تھے۔ یہ سب عظیم علمی شخصیات تھے جنہوں نے بڑی خدمات انجام دیں۔ ان میں سے دو کا تذکرہ کرتے ہیں:
ہشام بن حکم:
ہشام بن حکم دوسری ہجری کے آغاز میں کوفہ میں متولد ہوئے۔ شہر واسط میں پرورش پائی اور بعد میں بغداد کا سفر اختیار کیا۔ نوجوانی کے دور سے ہی ان کے سر میں سودا سمایا ہوا تھا اور وہ علم و معرفت کے شیدائی تھے۔ انہوں نے اس مقصد کی خاطر اپنے زمانے کے علوم سیکھے یہاں تک کہ ایک یونانی فلسفی کی رد میں کتاب بھی لکھی۔

کچھ کھٹے میٹھے لطیفے

(1)
دولت مند باپ نے اپنے کاہل اور نکھٹو بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔

’’تم نہایت ہی کاہل اور سست آدمی ہو، کوئی کام وغیرہ نہیں کرتے ۔ بس ہر وقت پڑے رہتے ہو، فرض کرو تمہاری شادی ہو جائے اور تمہاری بیوی تمہیں گھر سے باہر جانے اور کام کرنے پر مجبور کرے تو تم کیا کرو گے ‘‘؟

’’دوسری بیوی کی تلاش‘‘۔ بیٹے نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ۔
(2)
ماں نے اپنے نوجوان بیٹے کو آواز دی ۔

’’بیٹا ! نیچے آجاؤ ! اتنی رات گئے تک چھت پر کیا کر رہے ہو ؟‘‘

’’امی ! چاند دیکھ رہا ہوں ‘‘۔ بیٹے نے جواب دیا ۔

’’بیٹا !بہت دیر ہوگئی ہے ۔تم بھی نیچے آجاؤ اور چاند سے بھی کہو اپنے گھر چلا جائے
(3)
ایک امریکی باپ نے نہایت درد بھرے لہجے میں اپنے نو عمر سرکش بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی۔

’’بیٹا! اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ میں اور تمہاری مما ہمیشہ تو تمہاری رہنمائی کے لئے دنیا میں نہیں بیٹھے رہیں گے۔ ذرا سوچو کہ اگر آج میں اچانک مر جاؤں تو تم کہاں ہو گے ؟‘‘

بیٹے نے موسیقی کی دھن پر تھرکتے ہوئے جواب دیا

’’اگر آپ اچانک مرجائیں تو فکر کرنے کی ضرورت مجھے نہیں آپ کو ہوگی ۔ ذرا سوچیں ،آپ کہاں ہوں گے ؟
(4)

انگلینڈ کے شہنشاہ جارج پنجم کو بچوں سے بڑی محبت تھی ۔ ایک مرتبہ اس کی سواری دریائے ٹیمز کے پاس سے گزر رہی تھی کہ اس نے ایک چھوٹے سے بچے کو کاپی پہ جھکے دیکھا ۔ سواری کو رُکوا کر بادشاہ نیچے اترا اور بچے کے پاس جا کر پوچھا ۔

’’کیا کر رہے ہو‘‘؟

بچے نے کہا ۔ ’’سوال حل کر رہا ہوں ‘‘۔

بادشاہ مسکرایا اور بچے کی کاپی لے کر سوال حل کر دیا۔ اور پھر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ہنستے ہوئے گزر گیا ۔

چند ماہ بعد جارج پنجم کا دوبارہ ادھر سے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہی بچہ کاپی پر سر جھکا کر سوال کر رہا تھا ۔ بادشاہ سواری سے اتر کر اس کے پاس آیا اور پوچھا ۔

’’ کیا سوال مشکل ہے ‘‘؟

’’ہاں ‘‘۔ بچے نے جواب دیا ۔

’’لاؤ میں حل کردوں ‘‘

’’نہیں ‘‘ بچے نے کاپی فوراً پشت کی جانب کرلی ۔ پچھلی مرتبہ تم نے جو سوال حل کیا تھا وہ بالکل غلط تھا اور سزا میں مجھے ایک گھنٹہ تک کونے میں کھڑا ہونا پڑا تھا‘‘