(1) دولت مند باپ نے اپنے کاہل اور نکھٹو بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔ ’’تم نہایت ہی کاہل اور سست آدمی ہو، کوئی کام وغیرہ نہیں کرتے ۔ بس ہر وقت پڑے رہتے ہو، فرض کرو تمہاری شادی ہو جائے اور تمہاری بیوی تمہیں گھر سے باہر جانے اور کام کرنے پر مجبور کرے تو تم کیا کرو گے ‘‘؟ ’’دوسری بیوی کی تلاش‘‘۔ بیٹے نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ۔ (2) ماں نے اپنے نوجوان بیٹے کو آواز دی ۔ ’’بیٹا ! نیچے آجاؤ ! اتنی رات گئے تک چھت پر کیا کر رہے ہو ؟‘‘ ’’امی ! چاند دیکھ رہا ہوں ‘‘۔ بیٹے نے جواب دیا ۔ ’’بیٹا !بہت دیر ہوگئی ہے ۔تم بھی نیچے آجاؤ اور چاند سے بھی کہو اپنے گھر چلا جائے (3) ایک امریکی باپ نے نہایت درد بھرے لہجے میں اپنے نو عمر سرکش بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’بیٹا! اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ میں اور تمہاری مما ہمیشہ تو تمہاری رہنمائی کے لئے دنیا میں نہیں بیٹھے رہیں گے۔ ذرا سوچو کہ اگر آج میں اچانک مر جاؤں تو تم کہاں ہو گے ؟‘‘ بیٹے نے موسیقی کی دھن پر تھرکتے ہوئے جواب دیا ’’اگر آپ اچانک مرجائیں تو فکر کرنے کی ضرورت مجھے نہیں آپ کو ہوگی ۔ ذرا سوچیں ،آپ کہاں ہوں گے ؟ (4) انگلینڈ کے شہنشاہ جارج پنجم کو بچوں سے بڑی محبت تھی ۔ ایک مرتبہ اس کی سواری دریائے ٹیمز کے پاس سے گزر رہی تھی کہ اس نے ایک چھوٹے سے بچے کو کاپی پہ جھکے دیکھا ۔ سواری کو رُکوا کر بادشاہ نیچے اترا اور بچے کے پاس جا کر پوچھا ۔ ’’کیا کر رہے ہو‘‘؟ بچے نے کہا ۔ ’’سوال حل کر رہا ہوں ‘‘۔ بادشاہ مسکرایا اور بچے کی کاپی لے کر سوال حل کر دیا۔ اور پھر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ہنستے ہوئے گزر گیا ۔ چند ماہ بعد جارج پنجم کا دوبارہ ادھر سے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہی بچہ کاپی پر سر جھکا کر سوال کر رہا تھا ۔ بادشاہ سواری سے اتر کر اس کے پاس آیا اور پوچھا ۔ ’’ کیا سوال مشکل ہے ‘‘؟ ’’ہاں ‘‘۔ بچے نے جواب دیا ۔ ’’لاؤ میں حل کردوں ‘‘ ’’نہیں ‘‘ بچے نے کاپی فوراً پشت کی جانب کرلی ۔ پچھلی مرتبہ تم نے جو سوال حل کیا تھا وہ بالکل غلط تھا اور سزا میں مجھے ایک گھنٹہ تک کونے میں کھڑا ہونا پڑا تھا‘‘ |