تمام شیعہ اثنا عشری علماء اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر عبد اللہ تک سب کے سب مومن اور موحد تھے ۔ اب ہم ان میں سے کچھ لوگوں کے نظریات کو بیان کرتے ہیں:
1۔ بزرگ محدث، ابو جعفر علی بن حسین بن بابویہ جنھیں ”شیخ صدوق “ کے نام سے شہرت حاصل ہے، اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد کے سلسلہ میں ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ان کے والد بزرگوار تک سب کے سب مسلمان تھے ۔ 1
2۔ شیخ مفید ، شیخ صدوق کے مذکورہ جملہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: پیغمبر (ص) کے تمام آباء و اجداد حضرت آدم (ع) تک موحد ( ایک خدا کے قائل) تھے ۔ اور ابو جعفر شیخ صدوق (ع) کے نظریہ کے مطابق وہ سب خدا پر ایمان رکھتے تھے ۔ اور شیعہ جو برحق فرقہ ہے وہ اس بات پر اجماع رکھتا ہہے ۔ 2
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: شیعہ اثنا ء عشری علماء اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد حضرت آدم (ع) سے لے کر عبد المطلب تک سب کے سب خدا پر ایمان رکھتے تھے اور اس کی وحدانیت کے قائل تھے ۔ 3
3۔ شیخ الطائفہ، جناب ابو جعفر طوسی تحریر فرماتے ہیں: یہ بات ہمارے علماء کے نزدیک ثابت ہوچکی ہے اور ان کے درمیان کوئی ایک شخص بھی کافر نہیں تھا ۔ اس سلسلہ میں ان کی دلیل فرقہ برحق کا اجماع ہے اور یہ بات علم اصول میں ثابت وہ چکی ہے کہ یہ اجماع، جن میں معصوم کے دخول کی وجہ سے حجت ہے اور اس مسئلہ میں امامیہ ( شیعہ اثنا عشری) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
4۔ بلند پایہ کے شیعہ مفسر ابو علی طبرسی نے اس مبارک آیت < یا ابت لا تعبدوا الشیطان > کی تفسیر کرتے وقت اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ یہ خطاب حضرت ابراہیم (ع) کے ایسے باپ سے ہے جو ماں کی جانب سے حد تھے ورنہ ابراہیم (ع) کے حقیقی باپ کا نام ”تارُخ“ تھا۔ لکھتے ہیں: شیعہ علماء کا اجماع ہے کہ پیغمبر (ص) کے تمام آباء و اجداد حضرت آدم (ع) تک مسلمان اور موحد تھے ۔ 4
5۔ مرحوم مجلسی لکھتے ہیں: کہ تمام شیعہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر (ص) کے والدین گرامی اور تمام آباء و اجداد حضرت آدم (ع) تک مسلمان بلکہ ان کا شمار صدیقین میں ہوتا ہے۔ان میں سے ایک گروہ نبی مرسل کا ہے اور دوسرا گروہ معصوم اوصیاء کا ہے۔شاید ان میں سے بعض نے دینی مصلحت یا تقیہ کے پیش نظر اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا ۔ 5
6۔ شیعوں کا یہ عقیدہ اس حد تک معروف و مشہور رہا ہے کہ امام فخر رازی اپنی تفسیر میں شیعوں کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ: شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد میں کوئی ایک شخص بھی کافر نہیں تھا ۔ یہ لوگ ابراہیم (ع) کے والد کے کافر ہونے کا انکار کرتے ہوئے آ زر کو حضرت ابراہیم (ع) کا چچا مانتے ہیں۔ 6
پیغمبر کے آباء و اجداد مسلمان ہونے کے سلسلہ میں اہل سنت کا ایک گروہ، شیعوں کا ہم فکر اور موافق ہے ۔ لہذا ان میں بعض کے نظریات اور جملوں کو ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں:
1۔ آلوسی بغدادی نے اس آیت < وتقلبک فی الساجدین > کے ذیل میں لکھا ہےکہ اس آیت کے ذریعہ پیغمبر (ص) کے والدین گرامی کے ایمان کو ثابت کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ بہت سے بزرگ اہل سنت نے اس استدالال کو قبول بھی کیا ہے ۔ 7
پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں: اہل سنت کے اکثر علماء اس بات کے قائل ہیں کہ آذرحضرت ابراہیم (ع) کے والد نہیں تھے ۔ اور انھوں نے اس طرح دعوی کیا ہے کہ پیغمبر کے آباء و اجداد میں کوئی بھی شخص کافر نہیں تھا، اور اگر کوئی شخص فخر رازی کی طرح یہ دعویٰ کرے کہ یہ نظریہ اور قول صرف شیعوں کا ہے تو یہ اس کے کم علمی اور مطالعہ کی دلیل ہے ۔
2۔ کتانی ” نظم المتناثر “ نامی کتاب میں بوجوری کے حوالے سے لکھتے ہیں: وہ حدیثیں تواتر کی حد تک ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ پیغمبر (ص) کے تمام باپ اور ماں موحد تھے اور انھوں نے ہر گز کفر اختیار نہیں کیا، ان میں کوئی عیب اور پلیدی، اسی طرح اہل جاہلیت کی کوئی بھی چیز ان میں نہیں تھی ۔ 8
3۔ اہل سنت کے ایک برجستہ عالم دین، جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر سیوطی نے پیغمبر کے آباء و اجداد کے ایمان پر تاکید کرتے ہوئے اس پر کافی زور دیا ہے اور اس سلسلہ میں متعدد کتابیں بھی لکھی ہیں ۔
انھوں نے اس سلسلہ میں جن کتابوں کی تالیف کی ہے وہ اس طرح ہیں:
ا۔ مسالک الحنفاء فی نجاة آباء المصطفی ۔
ب۔ الدرج المنیفة فی الآباء الشریفة ۔
ج۔ المقامة السندسیة فی النسبة المصطفویة ۔
د۔ التعظیم و المنة فی ان ابوی رسول اللہ فی الجنة ۔
ر۔ السبل الجلیة فی الآباء العلیة ۔
س۔ نشر العلمین فی اثبات عدم وضع حدیث احیاء ابویہ و اسلامھما علی یدیہ ۔ 9
ان کے علاوہ اور جو دوسرے لوگ رسول اکرم کے آباء و اجداد کے ایمان کے قائل ہیں ان کے نام اس طرح ہیں: مسعودی اور یعقوبی، ماوردی کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔ رازی نے ”اسرار التنزیل “ میں اسی طرح سنونی اور تلسماتی نے بھی رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد کے ایمان کو صراحت سے ساتھ بیان کیا ہے ۔ 10
قاضی ابوبکر بن عربی سے لوگوں نے پوچھا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کہتے ہیں: رسول خدا (ص) کے والد ماجد جہنم میں ہیں ؟ !
انھوں نے برجستہ جواب دیا: ایسا شخص ملعون ہے، کیونکہ خدا کا ارشاد ہے < ان الذین یوذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا و الآخرہ > اب اس سے بڑی اذیت اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی پیغمبر کے والدین کے بارے میں یہ کہے کہ وہ جہنم میں ہیں ۔ 11
انھوں نے ہی ابو نعیم اصفہانی سے نقل کیا کہ: عمر بن عبد العزیز کے لئے ایک منشی لایا گیا جس کا باپ کافر تھا، تو عمر بن عبد العزیز نے کہا: اگر اولاد مہاجر سے ہوتا تو بہتر تھا ۔ منشی نے جواب دیا: پیغمبر کے والد بھی تو کافر تھے ! یہ سن کر عمر بن عبد العزیز کو غصہ آگیا اور کہا: اس حکومت میں ایسے منشی کی ضرورت نہیں ۔ 12
مشہور و معروف محدث و مفسر جناب عجلونی اسی طرح کا عقیدہ ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کہ پیغمبر کے والدین گرامی کے اسلام سے متعلق بہت سے علامء نے کتابیں لکھی ہیں (خدا وند متعال ان کی اس کوشش پر انھیں جزائے خیر دے) کیونکہ انھوں نے بھی کتاب ”المقاصد“ میں لکھا ہے کہ اس موضوع پر ایک جلد کتاب لکھی ہے ۔ 13
انھوں نے اس عقیدہ کو دوسروں کی جانب منسوب کرتے ہوئے لکھا: حفاظ محدثین اور غیر محدثین حضرات کی اکثریت اسی نظریہ کی حامی اور موافق ہے اور اسی سلسلہ میں ابن شاہین، و حافظ ابو بکر بغدادی، و سہیلی، و قرطی اور محب طبری جیسے لوگوں کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ 14
اس کے باوجود بھی اہل سنت کے بہت سے علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے والدین اور آباء و اجداد کافر تھے صرف یہی نہیں بلکہ ان میں سے بعض نے تو اس موضوع کو ثابت کرنے کے لئے کتابیں اور جریدے (میگزین) بھی تالیف کر ڈالی ہیں جیسے ابراہیم حلبی اور علی قاری ۔
امام فخر رازی کہتے ہیں: ہمارے علماء کا یہی خیال اور عقیدہ ہے کہ پیغمبر کے والد ماجد کافر تھے۔ 15
شیعہ اثنا عشری اپنے اس مدعا پر ( کہ پیغمبر کے تمام آباء و اجداد مومن ہیں) کافی دلیلیں بیان کی ہیں جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں:
1۔ پیغمبر اسلام (ص) کے تمام آباء و اجداد کے ایمان شیعہ اثنا عشری کا اجماع ہے ۔
2۔ خدا کے اس فرمان سے استدلال < الذین یراک حین تقوم، وتقلبک فی الساجدین > معنی آیت یہ ہے کہ خداوند عالم روح پیغمبر کو ایک سجدہ کرنے والے سے دوسرے سجدہ کرنے والے کی طرف منتقل کر دیتا ہے ۔ 16 اس معنی کے پیش نظر آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر کے تمام اجداد مسلمان تھے، اسی وجہ سے اس آیت کے ذیل میں ابن عباس، امام محمد باقر اور امام محمد صادق علیہما السلام سے مردوی ہے کہ: پیغمبر یکے بعد دیگرے ایک پیغمبر سے دوسرے پیغمبر کی صلب میں منتقل ہوئے ۔ 17
اسی آیت کے ذیل میں سیوطی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں: کہ رسول خدا (ص) ایک پیغمبر کی صلب سے دوسرے پیغمبر کی صلب میں منتقل ہوتے رہے پھر خدا نے ان میں بعنوان پیغمبر مبعوث کیا ۔ 18
3۔ پیغمبر کا ارشاد گرامی ہے :< لم یزل ینقلی اللہ من اصلاب الطاھرین الی ارحام المطھرات، حتی اخرجنی فی عالمکم، ولم ید نسنی بدنس الجاھلیة > خدا نے مجھے دائمی طور سے اور مسلسل پاک صلبوں سے پاک خواتین میں منتقل کیا یہاں تک کہ مجھے آپ کی دنیا میں پیدا کر دیا اور مجھے جاہلیت کی پلیدی اور خباثت سے دور رکھا ۔ 19
اگر پیغمبر کے آباء و اجداد میں ایک شخص بھی کافر ہوتا تو پیغمبر کبھی بھی ان سب کو طہارت سے متصف نہیں کرتے ۔ کیونکہ خدا کا ارشاد ہے < انما المشرکون نجس >
4۔ حضرت ابراہیم (ع) تک پیغمبر کے ایمان کو اس آیت کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ہے جس میں خدا حضرت ابراہیم (ع) اور اسماعیل (ع) کی حکایت بیان کر رہا ہے: < واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امة مسلمة لک > 20 پھر اسی آیت میں اس آیت کو ضمیمہ کریں < وجعلھا کلمة باقیة فی عقبہ > 21 ان دونوں آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ کلمہ ” اللہ “ قیامت تک ابراہیم (ع) کی ذریت میں باقی رہنا چاہئے، اسی طرح قیامت تک ذریت ابراہیم کی سرایتی جماعت (یعنی لوگوں) کا ہونا بھی ضروری ہے جو اپنی فطرت کے مطابق خدا کی عبادت کریں ۔ گویا یہ حضرت ابراہیم (ع) کی دعا کی قبولیت کا اثر ہے چونکہ انھوں نے خداسے دعا کی تھی < واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام > مجھے اور میرے فرزندوں کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ، اور یہ بھی مطالبہ کیا تھا <رب اجعلنی مقیم الصلاة ومن ذریتی> بار الٰہا ! مجھے اور میری اولاد کو نمازیوں میں شمار فرما ۔
5۔ پیغمبر اسلام (ص) کے جد محترم جناب عبد المطلب کے ایمان کی دلیلوں میں سے ان کا وہ جملہ اور دعا ہے جو انھوں نے حبش کے رہنے والے ابرہہ بادشاہ کے سلسلہ میں اس وقت کی تھی جب اس نے خانۂ کعبہ کو خراب کرنے کی غرض سے حملہ کیا تھا، کیونکہ حضرت عبد المطلب نے اس ہولناک موقع پر بتوں سے پناہ مانگنے کے بجائے خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے خدا پر بھروسہ کیا۔ 22
بلکہ ہم تو اس حد تک کہہ سکتے ہیں کہ جناب عبد المطلب پیغمبر کے درخشان مستقبل اور ان کی شان و منزلت کے عارف تھے ۔ چونکہ طلب باران کے لئے وہ پیغمبر کو اس وقت صحرا میں لے گئے جب حضرت کا بچپنا تھا ۔ ان کا یہ رد عمل سوائے پیغمبر کی عظمت و منزلت کے اعتقاد کے اور کچھ نہ تھا ۔ 23
اسی وجہ سے ہم تاریخ کے صفحات پر ملاحظہ کرتے ہیں کہ جناب عبد المطلب پیغمبر کے بچپن میں جناب ام ایمن سے تاکید کوتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس بچہ سے ہر گز غافل نہ ہونا ۔ 24
پیغمبر اسلام (ص) کے والد اور اجداد کا ایمان روایات کی نظر میں:
اہلسنت اور شیعہ اثنا عشری کی کتابوں میں موجود روایتوں کا مطالعہ کرنے پر ایسی بہت سی روایتیں ملیں گی جن میں پیغمبر اسلام (ص) کے والد ماجد کے ایمان کو واضح اور روشن طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ اور ان میں سے بعض روایتوں کو یہاں پر پیش کر رہے ہیں:
1۔ شیخ کلینی اپنی سند کے ساتھ امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ امام (ع) نے فرمایا: جبرئیل (ع) پیغمبر پر نازل ہوئے اور عرض کی اے محمد ! خداوند متعال آپ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے فرماتا ہے: بے شک میں نے ان صلبوں پر جہنم کو حرام قرار دیا ہے جنھوں نے آپ کو پیدا کیا۔ (اسی طرح) اس رحم پر جس نے آپ کا حمل (اٹھایا) کیا، اور اس مربی کی جس نے آپ کی کفالت کی ۔ 25
2۔ شیخ طوسی اپنی سند کے ذریعہ جابر بن عبد اللہ انصاری سے انھوں نے پیغمبر اسلام (ص) سے ایک حدیث کے ضمن میں نقل کیا کہ پیغمبر فرماتے ہیں: جب خدا نے مجھے خلق کیا تو مجھے ایک پاک و پاکیزہ نطفہ سے پیدا کیا، پھر اس کو میرے پدر آدم کی صلب میں قرار دیا، اس کے بعد اسی طرح سے ایک پاک صلب سے، پاک رحم میں حضرت نوح و ابراہیم (ع) تک منتقل کیا یہاں تک کہ میرے والد ماجد عبد المطلب تک پہونچا، لہذا جاہلیت کی برائیوں کا میرے نزدیک گذر بھی نہیں ہوا۔ 26
3۔ امیر المومنین حضرت علی (ع) انبیاء مرسلین کے صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
” خدا نے پیغمبروں کو بہترین جگہوں پر قابل رشک مکانوں پر مستقر کیا ۔ آباء و اجداد کی کریم صلبوں سے ماؤوں کے پاک رحموں تک منتقل فرمایا تاکہ جب بھی ان میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخت سفر باندھ لے تو دوسرا دین خدا کو آگے بڑھانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو یہاں تک کہ نبوت کا عظیم منصب خداکی جانب سے پیغمبر تک پہونچا، ان کے وجود مبارک کو بہترین معدن سے بنایا ان کے وجود کلی کو اصلی اور محبوب ترین زمینوں پر کھلایا اور پھر پروان چڑھایا، انھیں بھی اسی درخت سے پیدا کیا جس سے دوسرے تمام نبیوں اور امینوں کو پیدا کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی عترت اور ان کا خاندان بہترین خاندان اور ان کے مبارک وجود کا درخت سے سے بہتر درخت ہے، ان وجود کا درخت اللہ کے محفوظ حرم میں اگا اور کریم گھرانے کی آغوش میں رشد و نمو پایا، اس کی بلندشاخیں اس حد تک آسمان کی بلندی کی طرف پہونچ گئیں کہ کوئی بھی اس کے میوے تک رسائی نہیں رکھ سکتا“۔27
4۔ شیخ صدوق اپنی سند کے ساتھ حضرت علی (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ امیر المومنین (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم ! میرے والد ماجد اور جد امجد عبد المطلب ہاشم اور عبد مناف نے کبھی بھی کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا، جب حضرت سے پوچھا گیا تو پھر وہ لوگ اس کی عبادت کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: خدا کے گھر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اور حضرت ابراہیم (ع) کے دین پر باقی تھے اور اسی سے تمسک رہے ۔
5۔ شیخ صدوق ہی نے اپنی سند کے ذریعہ جابر بن یزید جعفی سے انھوں نے عبد اللہ انصاری سے نقل کیا کہ پیغمبر سے پوچھا گیا آپ اس وقت کہاں تھے جس وقت حضرت آدم (ع) بہشت میں تھے ؟ جواب دیا: میں ان کے صلب میں تھا اور انھیں کے ساتھ زمین پر آیا، میں کشتی میں اپنے پدر حضرت نوح (ع) کے صلب میں تھا، جس وقت حضرت ابراہیم (ع) کو نار نمرود میں پھینکا جا رہا تھا میں انھیں کے صلب میں تھا ۔ اسی طرح خداوند عالم ہمیں ایسے پاک صلبوں سے پاک و مطہر رحموں میں منتقل کرتا رہا جو سب کے سب ہادی اور مہدی تھے “28
اسی مضمون کو اہل بیت علماء نے بھی لکھا ہے جیسے متقی ہندی نے کنز العمال میں، اور سیوطی نے درمنثور میں ۔
1۔ امام ترمذی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ پیغمبر نے فرمایا: بے شک خدا نے انسانوں کو پیدا کیا اور خدا نے مجھے انھیں لوگوں میں سے ایسے لوگوں اور فرقوں میں رکھا جو سب کے سب بہترین اور با فضیلت تھے ۔ قبیلوں کو منتخب کرنے کے بعد مجھے سب سے بہترین قبیلہ میں قرار دیا، اسی طرح اس نے بہترین گھرانے کو چنا پھر مجھے سب سے بہترین گھرانے میں رکھا، لہذا میں نسب اور گھرانے کے اعتبار سے سب سے بہتر ہوں ۔ 29
2۔ قندوزی حنفی طبرانی اپنی سند کے ذریعہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: میں منتخب شدہ اشخاص سے دوسرے منتخب شدہ اشخاص میں یکے بعد دیگرے منتقل ہوتا رہا ۔ 30
3۔ ہیثمی نے اپنی سند کے حوالے سے اس آیت ” وتقلبک فی الساجدین“ کی تفسیر کرتے ہوئے ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر نے فرمایا: میں ایک پیغمبر کی صلب سے دوسرے پیغمبر کی صلب میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ میں خود مبعوث بہ رسالت ہوا ۔ 31
ان لوگوں کی دلیلوں پر تنقید جنھوں نے آباء و اجداد نبی کو غیر مومن بتایا:
جو لوگ پیغمبر کے آباء و اجداد کو مومن نہیں مانتے ہیں انھوں نے بھی کچھ دلیلوں سے تمسک کیا ہے جنھیں ہم ذکر کرنے کے بعد ساتھ ساتھ ان کا بھی جواب دیں گے:
قرآن کریم میں حضرت ابراہیم (ع) کے باپ کو صراحت کے ساتھ کافر بتایا گیا ہے، دلیل کے طور پر قرآن کا یہ جملہ ہے < وما کان استغفار ابراھیم لابیہ الا عن موعدة وعدھا ایاہ فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبروا منہ ان ابراھیم لاواہ حلیم > ابراہیم نے اپنے باپ کے لئے صرف اس وجہ سے طلب مغفرت کی چونکہ وہ ان کو وعدہ دے چکے تھے (لیکن) جب انھیں معلوم ہوگیا کہ وہ دشمن خدا ہے تو ان سے بیزار ہوگئے، بے شک ابراہیم (ع) بہت ہی دلسوز اور برد بار تھے ۔ 32
پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن نے اس بات پر مورخوں کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ آذر حضرت ابراہیم (ع)کے والد نہیں تھے بلکہ چچا یا نانا تھے، چونکہ (چچا اور نانا کے سلسلہ میں) اختلاف ہے۔33
حضرت ابراہیم (ع) کے حقیقی والد ”تارُخ“ ہیں34 اور لفظ ”اب“ کا استعمال ”چچا“ پر مجازاً اور از باب توسعہ ہے ۔ جیسا کہ خود قرآن کریم میں اس کی نظیر موجود ہے < ام کنتم شہداء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لنبیہ ما تعبدون من بعدی قالوا نعبد الھک والہ آبائک ابراہیم و اسماعیل واسحاق الہھا واحداً ونحن لہ مسلمون> تم اس وقت کہاں تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا اور اپنے بچوں سے کہہ رہے تھے: میرے بعد تم لوگ کس کی عبادت کروگے؟ انھوں نے جواب دیا: آپ اور آپ کے آباء و اجداد ابراہیم و اسماعیل (ع) اور اسحاق کے خدا کی جو کہ وحدہ لاشریک ہے اور ہم اس کے مطیع و فرمانبردار ہیں ۔ اس آیت میں خدا نے اسماعیل (ع) کو یعقوب (ع)کے آباء و اجداد میں شمار کیا گیا ہے جب کہ ان کے آباء میں سے نہیں تھے بلکہ ان کے چچا ہیں ۔ 35
دوسرے یہ کہ ”اب “ اور ”والد“ کے درمیان فرق ہے چونکہ اب کا استعمال مربی، چچا اور دادا کے لئے بھی ہوتا ہے برخلاف والد کے کہ یہ دو لفظ صرف اس بات کے لئے استعمال ہوتا ہے جو واسطہ کے بغیر ہو اسی وجہ سے مذکورہ آیت میں لفظ اب کا استعمال ہوا ہے لیکن سورۂ ابراہیم میں خدا نے حضرت ابراہیم (ع)کے حوالہ سے اس طرح نقل کیا :< ربنا اغفرلی ولوالدی و للمومنین یوم یقوم الحساب > پروردگارا روز محشر مجھے اور میرے والدین کو بخش دینا ۔ 36
مسلم اور دوسروں نے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے پیغمبر سے پوچھا: آپ کے پدر بزرگوار کہاں ہیں ؟ جواب دیا: جہنم میں ۔ وہ جب واپس جانے لگا تو پیغمبر نے اسے بلایا اور فرمایا: بے شک میرے اور تمھارے پدربزرگوار جہنم میں ہیں ۔ 37
یہ حدیث کئی طرح سے باطل ہے:
پہلی بات تو یہ ہے کہ پیغمبر کے تمام آباء و اجداد مومن تھے اور یہ بات گذشتہ صفحات میں دلیلوں سے ثابت کی جا چکی ہے ۔ دوسری بات تو یہ ہے کہ حماد بن سلمہ نے اس روایت کو ثابت سے انھوں نے انس سے نقل کیا ہے لیکن ”معمر“ نے اسی حدیث کو ثابت سے انھوں نے انس سے ایک دوسری طرح سے نقل کیا ہے جس میں پیغمبر کے والد کو کافر نہیں کہا گیا ہے۔ 38
اہل سنت کے علماء رجال نے صراحت سے لکھا ہے کہ نقل حدیث کے سلسلہ میں ”معمر“ حماد سے زیادہ قوی ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ حماد کے حفظ اور محفوظات کے حوالہ سے لوگوں نے شک کا اظہار کیا ہے ۔بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حماد سے مردی حدیثوں میں غلط باتیں زیادہ ہیں ۔ 39
تیسری بات تو یہ ہے کہ یہی روایت شرط شیخین کے ساتھ سعد بن ابی وقاص سے نقل ہوئی ہے جس کے ذیل میں اس طرح آیا ہے ” حیثما مررت بقبر کافر فبشرہ بالنار “ جب تمھارا گذر کسی کافر کی قبر سے ہو تو اسے جہنم کی بشارت دو ۔ 40
چوتھی بات یہ ہے کہ ہو سکتا ہے اس روایت میں لفظ ”ابی“ سے مراد چچا ابو لہب یا ابوجہل یا دونوں، جیسے چچا ہوں جس طرح قرآن میں حضرت ابراہیم (ع) کے چچا کے لئے لفظ ”اب“ کا استعمال ہوا ہے ۔ 41
بحث کے اختتام میں ایک سوال بیان کر کے اس کا جواب دینا چاہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں بعض لوگ پیغمبر کے آباء و اجداد کو کافر کہنے پر مصر ہیں ؟
جواب: پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد کو کافر ثابت کرنے کی مندرجہ ذیل وجہیں ہو سکتی ہیں:
1۔ حضرت علی (ع) کی دشمنی و عناد کی وجہ سے پیغمبر کے آباء و اجداد میں پیغمبر (ص) کے ساتھ علی (ع) کو شریک کرنا ۔
2۔ بعض لوگ اس بات کو نہیں برداشت کر پاتے ہیں کہ خلفائے بنی امیہ اور دوسروں کے باپ تو کافر ہوں لیکن پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد مومن ہوں ۔ لہذا اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اس عظمت و فضیلت کو پیغمبر (ص) سے سلب کر کے انھیں دوسروں کے مساوی و برابر بنادیں ۔
منبع: شیعہ شناسی و پاسخ بہ شبہات؛ علی اصغر رضوانی، ج 1، ص 252 ۔ 262 ۔ ترجمہ سوال و جواب: نور محمد ثالثی ۔ (گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
نورِ ہدایت | ![]() |
نکات: ٭ رسولِ اکرم ۰ کے چچا جنابِ عباس اور جنابِ شیبہ ایک دوسرے پر فخر جتا رہے تھے۔ عباس کہنے لگے، ’’یہ میرے لئے نہایت ہی فخر کی بات ہے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں‘‘ اور شیبہ کہنے لگے کہ ’’میں خانہ کعبہ کا کلیدبردار ہوں‘‘۔ اس پر حضرت علی نے فرمایا: ’’میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ آپ لوگوں سے کم سن ہوں لیکن آپ لوگ میری شمشیر اور جہاد کی وجہ سے ایمان لائے ہو‘‘۔ حضرت عباس کو یہ بات بری لگی تو انہوں نے آنحضرت۰ سے شکایت کردی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (منقول از تفسیرِ نمونہ) ٭ حضرت علی نے بار ہا اس آیت کے ذریعے اپنی اولویت اور افضلیت ثابت کی ہے، کیونکہ ایمان اورجہاد ان تمام خدمات سے بالاتر ہے جو دوران شرک انجام دی گئی ہوں، کیونکہ ان خدمات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پیام: ١۔ اپنے اعمال پر نہیں اترانا چاہئے کیونکہ ایمان کے بغیر عمل کی حیثیت سراب کی سی ہے یا بے روح جسم کی سی۔ ٢۔ مخلص مجاہد دوسروں سے برتر ہیں چاہے دوسروں کے کام بڑے اہم ہی کیوں نہ ہوں۔ (آَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجّ) ٣۔ باایمان مجاہدوں کو دوسروں کے ہم پلہ جاننا معاشرتی مظالم میں سے ایک ظلم ہے۔ (الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ) ٤۔ تقویٰ کی طرح ایمان، ہجرت اور جہاد بھی تمام نیکیوں میں سرِ فہرست ہیں۔(اَعْظَمُ دَرَجَۃً) ٥۔ اگر لوگوں کے نزدیک قبائلی اور نسلی امتیاز قابلِ قدر ہے تو خدا کے نزدیک ایمان، ہجرت اور جہاد امتیاز ہیں۔ (عِنْدَ اللّٰہِ) ٦۔ ایمان دوسرے تمام کمالات کے لئے ضروری ہے۔(اٰمَنُوا) ٧۔ تمام مقدس کاموں کی قدرو قیمت نیت پر منحصر ہے۔( فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) ٨۔ اصل کامیابی اور کامرانی صرف اور صرف ایمان کے زیرِ سایہ ہی ممکن ہے۔(ھُمُ الْفَائِزُونَ) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہی مہاجر اور مجاہد مومنین کو بہشت کی نوید دی ہے۔(یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ) ١٠۔ کسی دین کے جامع ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ فطرت کے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں کو امید بھی دلاتاہے۔(یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ) ١١۔ اگرخدا کی خوشنودی کے لئے فانی نعمتوں سے دستبربردار ہو جائیں تو ابدی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔(نَعِیْم¾ مُقِیم¾) ١٢۔ دنیوی نعمتوں کے لئے زوال اور فنا بہت بڑی آفت ہے جب کہ آخرت میں اس قسم کی کوئی آفت نہیں ہوگی۔ (مُقِیم¾، خَالِدِینَ، اَبَداً) ١٣۔ جو خدا ساری دنیا کو ’’قلیل‘‘ کہتا ہے وہی مجاہدین کے اجر کو (عظیم) کہہ رہا ہے۔ ١٤۔ خداوندِ عالم ہماری قلیل اور فانی چیزوں کو بہت بڑی قیمت کے بدلے خریدتا ہے حالانکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ بھی اسی کا دیا ہوا ہے۔ |
نبی اکرمکامیاب مدیریت کے لئے نمونہ عمل | |
مقدمہ: انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مدیریت (Management) ایک اہم اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر انسانی زندگی پر صحیح مدیریت کا غلبہ نہ ہو تو سرمائے تباہ و برباد ہو جائیں گے اور صلاحیتیں اجاگر نہ ہوں گی اور پھر سرمائے کی تباہی اور استعداد کے اجاگر نہ ہونے سے انسان اور معاشرہ تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔ جب کہ اگر صحیح اور مفید مدیریت (Manamement) معاشرے پر محیط ہو تو صلاحیتیں منصہ ظہور پر آتی ہیں اور انسان کا مادی و معنوی سرمایہ ہر طرح کی ترقی و کمال اور رشد و تکامل کی جانب بڑھنا شروع کر دیتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ایجادات اور نت نئے امور سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ وہی شخص ایک کارآمد، خلاق اور اندرونی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے والا مدیر ثابت ہو سکتا ہے جو تین خوبیوں کا مالک ہو: نظریہ سے اخلاص و وفاداری، مہارت اور تجربہ۔ اگر کوئی مدیر ان میں سے کسی ایک سے بھی بے بہرہ ہو، وہ کامیاب مدیر ثابت نہیں ہوگا۔ اسلامی تعلیمات میں بھی ایک مدیر کی شرائط پر خاص توجہ مبذول کی گئی ہے اور اس کے لئے نمونے بھی معین کئے گئے ہیں تاکہ جو لوگ سوسائٹی کی مدیریت کی ذمہ داری سنبھالنا چاہتے ہیں وہ ان شرائط و حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان نمونہ عمل افراد (Role Models) کی پیروی کریں۔ ہم اس مقالے میں نبی اکرم ۰ کو کامیاب مدیر کے لئے نمونہ عمل کے طور پر متعارف کرائیں گے۔ یعنی ایک ایسا انسان کہ جس نے آکر ایسے معاشرے میں کہ جہاں کی خصوصیت ہی جہالت اور نادانی تھی، ایسا انقلاب برپا کردیا کہ وہاں کے تمام وسائل ایک عظیم تمدن کی تشکیل اور سوسائٹی کی ترقی میں استعمال ہونے لگے۔ بقولِ امیر المومنین علیٴ بن ابیطالبٴ جو لوگ اس دو رمیں بدترین دین کے پیروکار اور بدترین سرزمین پر مقیم تھے، سخت پتھروں اور بہرے سانپوں کے درمیان، آلودہ پانی پیا کرتے، ناگوار خوراک پر تکیہ کرتے، ایک دوسرے کا خون بہایا کرتے، رشتوں ناتوں کو توڑ دیتے تھے اور ان درمیان بت برپا تھے اور وہ پوری طرح گناہوں کی دلدل میں غرق تھے۔ لیکن بعثت رسول۰ کے بعد آپ۰ نے ان کی ہدایت کر کے انہیں گمراہی سے نکالا اور اپنے مقام کے ذریعے انہیں جہالت سے نجات دی۔ ہم اس نکتے پر پانچ حصوں میں گفتگو کریں گے: ١۔ ایک فکری مکتب کی خصوصیت: ہر فکری اور دینی مکتب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے پیروکاروں اور چاہنے والوں کے درمیان نفوذ پیدا کرنے اور مستحکم و ناقابلِ شکست بننے کے لئے دو خصوصیات کا حامل ہو: اول: صحیح اور ناقابلِ تردید تعلیمات، مستحکم و عقل پر مبنی عقائد اور ایسے اصول جس پر کوئی اعتراض نہ ہوسکے تاکہ دوسرے نظریات و مکاتب کا مقابلہ کر سکے اور ان پر غلبہ پا سکے۔ دوسرے الفاظ میں اس مکتب فکر اور دین کو دو بنیادوں پر استوار ہونا پڑے گا: ایک تو یہ کہ اس میں ایسے عقائد اور تصورِ کائنات کے ایسے اصول ہونے چاہئیں جن کی حمایت اور دفاع عقل اور منطق کے ذریعے کیا جاسکے اور دوسرے یہ کہ ایسا پروگرام اور ایسے احکامات ہوں جو فطرت کے ساتھ مطابقت رکھیں اور سوسائٹی کے افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر اور ان کی ضروریات کو پورا کریں۔ دوم: ایسے نمونہ عمل (رول ماڈل) موجود ہوں جو ان اصولوں اور اقدار کا مظہر بن جائیں اور ان کو منصہ ظہور پر اس طرح پیش کریں کہ ہر انسان اس مکتب کو ان لوگوں کی سیرت و کردار میں تلاش کرسکے۔ یعنی ایسے انسان جن کی شخصیت کا ہر پہلو اور ان کی ہر خاصیت نے اسی مکتب کے زیرِ سایہ پرورش پائی ہو۔ درحقیقت یہ گروہ ایک مکتب کے سرفہرست افراد ہوتے ہیں جن کا سرتاپا وجود اور ان کی پوری زندگی اس مکتب کی حقانیت اور تعلیمات کی سچائی کی دلیل شمار ہوتی ہے۔ لوگ جب اس قسم کے افراد کو دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں معارف دین کے زیر سایہ عظمت و کمال کی بلندیوں کو سر کیا ہو تو وہ ان اعتقادات اور تعلیمات کی سچائی کا ادراک کر لیتے ہیں اور اس مکتبِ فکر کو قبول کرنے کے لئے ان کے اندر رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ ٢۔ انبیائ رول ماڈل ہیں: انبیائ کی شخصیات راہِ حقیقت کے راہیوں کے لئے مفید نمونہ عمل ہیں نیز جو عقائد دین نے سکھائے ہیں اور جس عمل کی جانب رہنمائی کی ہے اور وہ آسمانی پیغامات جو نبوت کا نتیجہ ہیں، یہ انبیائ ان سب کی سچائی کی دلیل ہیں۔ خدا نے انسانوں کی ہدایت کے حوالے سے اتمامِ حجت کے لئے ایسے رسولوں کو بھیجا ہے جو اللہ کا پیغام پہنچانے کے علاوہ خود بھی حجت، نمونہ عمل اور لوگوں پر گواہ بن جائیں اور عملی طور پر اپنی تعلیمات کی سچائی کا ثبوت دیں۔ قرآن مجید میں ہے: رُسُلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علی اللّٰہ حجۃ بعد الرُسل۔ (یعنی دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لئے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے۔ سورہ نسائ ١٦٥) کیونکہ یہ انبیائ اس مکتب کا کامل نمونہ اور منزل تک پہنچے ہوئے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان انبیائ کا انتخاب اس عنوان سے کیا ہے کہ وہ دین کا مجسم نمونہ ہیں اور ان کی اہم ترین خصوصیت ان کا بشر ہونا ہے تاکہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ہم آہنگی ہو اور انسانی رجحانات اور خصوصیات بھی پائی جائیں تاکہ انبیائ اور ان کے ماننے والوں کے درمیان ایک گہرا تعلق برقرار ہوجائے۔ اسی لئے انبیائ کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے جیسے بشر ہیں۔ قالت رسلہم ان نحن الا بشر مثلکم۔ (ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم تم جیسے بشر کے سوا کچھ اور نہیں ہیں) نیز آنحضور۰ نے بھی فرمایا: قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الیّ۔ (یعنی کہہ دیجئے! میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے۔ سورہ کہف ١١٠) اسی لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ۔ (بتحقیق تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمو نہ ہے۔ سورہ احزاب ٢١) جیسا کہ دینِ اسلام ایک جامع دین ہے اور انسانی زندگی کے تمام ۔۔ معنوی، مادی، انفرادی اجتماعی، جسمانی، روحانی، دنیوی، اخروی، عقلی، عاطفی اور جذباتی ۔۔ پہلووں پر پوری توجہ دیتا ہے ، لہذا جن افراد کو نمونہ کے طو رپر پیش کرتا ہے وہ بھی جامع ہونے چاہئیں اور انفرادی و اجتماعی اور دوسرے تمام اعتبارات سے اپنے کردار و نظریات، اطوار و عادات، عقیدہ و تعلقات اور تمام حرکات و سکنات میں ممتاز اور صاحبِ کمال ہونا چاہئے تاکہ کمال کی جستجو رکھنے والے انسانوں کو اپنی جانب مائل اور ان کی ہدایت کر سکے۔ ٣۔ نمونہ عمل (رول ماڈل) کی ضرورت: انسانی زندگی میں نمونہ عمل کا ہونا مختلف مقاصد و اہداف کے تحت ضروری ہے۔ اور اس کے دلائل یہ ہیں: الف: ان کے ذریعے سے حقیقت کی پہچان: انسان کے رشد و کمال میں راہِ کمال کی شناخت اور اس کا حصول بہت اہم ہے۔ دینی مکاتب کے تربیت یافتہ افراد کو برتر اور کامل تر نمونہ عمل قرار دینا وہ بنیادی ترین عامل ہے جو انسان کی تربیت اور اس کی ہدایت میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ افراد کمال کی وہ راہیں طے کر چکے ہوتے ہیں اور ان حدود تک پہنچ چکے ہوتے ہیں جو بطورِ نمونہ قرار پانے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ انہوں نے کمال کے کچھ مراحل گذار لئے ہوتے ہیں اور نیک صفات سے مزین ہو جاتے ہیں۔ اب کمال کی جستجو کے لئے آبلہ پائی کرنے والے کو اپنے اندرونی یا بیرونی محرک کے تحت ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہوتا ہے اور ان کی طرح سے کمال کی راہ پر گامزن ہونا ہوتا ہے۔ انبیائ علیہم السلام کی ہدایت و رہنمائی کا زیادہ تر تعلق ان کے نمونہ عمل بننے کے اعتبار سے ہی ہے۔ یعنی انبیائے الہی خدا کی عنایت اور اپنے عاشقانہ سیر و سلوک کے ذریعے اپنی ایک خدائی صفات کا مظہر انسان بن جاتے ہیں جو نیک صفات اور اخلاقی فضائل سے آراستہ ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جس کے بعد دوسرے انسان زندگی کے تمام پہلووں میں اپنے عمل کے لئے ان کے کردار کو سامنے رکھتے ہیں اور ان کے نقشِ پا پر قدم رکھتے ہیں۔ ب: رشد و تربیت کے صحیح معیار: درست پرورش کے لئے رشد و تربیت کے صحیح معیارات کا ہونا لازمی امر ہے۔ یہ معیارات جو کہ عمل کی پہچان کے لئے میزان اور کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، کبھی وجودی ہوتے ہیں اور کبھی ذہنی۔ نمونہ عمل بننے والے افراد عقیدتی اور اخلاقی اصولوں کی تعلیم دیتے وقت ذہنی معیار فراہم کرتے ہیں اور اپنے عمل کے ذریعے وجودی معیار بھی دکھا دیتے ہیں۔ یہ رول ماڈل حضرات انسان کی پاکیزہ اور آلودہ صفات کو پرکھنے کے لئے ایک معیار ہیں اور ہر انسان ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو پیش کر کے مثبت یا منفی عمل اور اچھے یا برے اخلاق و فضائل کو پرکھ سکتا ہے۔ ج: انسان کے لئے عاملِ تحرک: سوسائٹی کے اندر کسی اسوہ (رول ماڈل) کا وجود دوسرے لوگوں کے لئے اور راستے میں ٹھہر جانے والے کمزوروں کے لئے سرمایہ امید ہوتا ہے۔ جب ایک غافل انسان اپنی تمام توانائیوں، استعدادوں اور روح کے اندر انرجی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو چھوڑ کر گوشہ گیر ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی حرکت اور جستجو سے بیگانہ ہو جاتا ہے تو اس کے اندر حرکت اور جنبش پیدا کرنے کے لئے نمونہ عمل لوگوں کو اس کے سامنے پیش کرنا موثر ترین عامل بن سکتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رہبر و رہنما کا وجود ہی انسان کو خوداعتمادی، بلند پروازی، طاقت، عاقبت اندیشی اور شوق و اشتیاق دیتا ہے۔ قرآن کریم اور دوسرے اسلامی مآخذ نے بھی تحرک پیدا کرنے کے لئے اسوہ (رول ماڈل) کی تاثیر پر توجہ دی ہے اور متعدد طریقوں سے لوگوں کو ان نمونہ عمل افراد کی پیروی کی دعوت دی ہے اور سوسائٹی میں ایسے افراد کے وجود کو نیک کاموں کی جانب رجحان اور ان کے اقتدار کا سبب قرار دیا ہے: ’’و لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اللّٰہ و الیوم الاٰخِر و ذکر اللّٰہ کثیراً‘‘۔ ترجمہ: بتحقیق تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور روزِ آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ (سورہ احزاب ٢١) د: انحرافات کی روک تھام : اسوہ (رول ماڈل) اور نمونہ عمل افراد کو پیش کرنا جرائم اور انحرافات کو روکنے کے لئے بھی بہت موثر اور مفید ہے۔ کیونکہ انسان اپنی سوسائٹی، تہذیب و تمدن اور تاریخ میں برائیوں سے آلودہ افراد کی ذلت و خواری اور پاکیزہ افراد کی عزت و محبوبیت کو دیکھتا ہے، تو ان نیک اور پاکیزہ لوگوں کی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ان کو اپنے عمل کے لئے رول ماڈل کی حیثیت سے قبول کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ پاکیزہ افکار اور نیک اعمال کی انجام دہی میں کامیاب اور برائی اور برے لوگوں سے متنفر ہو جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسانی رول ماڈل اور نیک و صالح اسوہ عمل کی نشاندہی سے صداقت، امانت، اخلاقی پاکیزگی اور انسانیت جیسے پہلووں میں اضافہ ہوتا ہے جس سے انحرافات اور برائیوں سے مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ ٤۔ رول ماڈل کی روحانی اور عملی خصوصیات: جو رول ماڈل سوسائٹی میں نفوذ پیدا کرتے ہیں وہ کچھ ایسی خصوصیات سے بہرہ مند ہوتے ہیں جن کے ذریعے گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ ان خصوصیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: الف: اندرونی خصوصیات: وہ خصوصیات جن کا تعلق دل سے، نظریات و افکار سے اور انسان کے اندر سے ہے ، وہ علمی اور روحانی حالات ہیں: ( i) علم و بصیرت: ایک رول ماڈل کے لئے اہم ترین اندرونی خصوصیت ضروری علم و بصیرت کا موجود ہونا ہے۔ چنانچہ خداوند متعال رسولِ اکرم ۰ سے فرماتا ہے: قل ھٰذہ سبیلی ادعوا الی اللّٰہ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی‘‘ (یعنی کہہ دیجئے یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار، پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ سورہ یوسف ١٠٨) |