امام جعفر صادقٴ ١٧ ربیع الاول ٨٣ ھ کو مدینہ میں متولد ہوئے اور ٦٥ سال کی عمر میں ١٥ یا ٢٥ شوال ١٤٨ ہجری کو مدینہ میں شہید ہوئے۔ آپٴ نے پچاس سال بنو امیہ کی حکومت کے آخری دور میں اور پندرہ سال بنوعباس کی حکومت کے ابتدائی دور میں گذارے۔ علمی عظمت، بے کراں زہد، بے نظیر عبادت، عالمِ اسلام کی مصلحت پر نگاہ، مذہبِ تشیع کی حیثیت کا دفاع اور لوگوں کی ہدایت امامٴ کی برجستہ خوبیاں شمار کی جاسکتی ہیں۔ آپٴ کی امامت کے زمانہ میں ثقافتی صورتحال بہت گمبھیر تھی۔ متعدد فرقے اور طرح طرح کے مذہب آپس میں ایک ساتھ زندگی گزار رہے تھے اور ہر کوئی اپنی سچائی کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ امام جعفر صادقٴ نے متعدد بار ان کے رہنماوں سے مناظرے کئے اور متعدد شاگردوں کی تربیت کر کے مذہب تشیع کی حقانیت کو ثابت کیا۔ انہوں نے علمی یونیورسٹی قائم کر کے شیعہ علوم و معارف کو فروغ دیا۔ اس مقالے میں امامٴ کی زندگی کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا جائے گا۔ ٭¥٭¥٭ امامت کا اعلان: امام زین العابدین علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آپٴ کے بعد امامٴ کون ہے؟ تو فرمایا: محمد باقرٴ جو علم کو پھیلائیں گے۔ پھر پوچھا کہ ان کے بعد امام کون ہوگا؟ تو جواب دیا: جعفر، کہ اہلِ آسمان کے نزدیک ان کا نام صادق ہے۔ حاضرین حیران ہوکر کہنے لگے: ’’آپ تو سب سچے اور صادق ہیں؛ انہیں کیوں خصوصیت سے یہ نام دیا گیا ہے؟‘‘ امام سجادٴ نے رسولِ اکرم ۰ کے ایک فرمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے بابا نے رسولِ خدا سے نقل کیا ہے کہ جب میرا بیٹا جعفر بن محمد بن علی بن حسین علیہم السلام متولد ہو تو اس کا نام صادق رکھنا۔ کیونکہ اس کی نسل کا پانچواں بیٹا بھی جعفر ہوگا۔ وہ خدا پر جھوٹ باندھتے ہوئے امامت کا دعویٰ کرے گا۔ وہ خدا کے نزدیک جعفر کذاب اور خدا پر افترا باندھنے والا ہے۔‘‘ اللہ کا یہ وعدہ ١٧ ربیع الاول ٨٣ ہجری کو پورا ہوا اور نبی پاک ۰ کے خاندان میں ایک پاکیزہ بچے نے دنیا میں آنکھیں کھولیں۔ امام صادقٴ کی سیاسی و اجتماعی زندگی امام صادقٴ کے دور کی خصوصیت: چھٹے امامٴ کی زندگی کا دور مروانی اور عباسی حکومتوں کے زمانے میں تھا۔ اس زمانے میں مختلف قسم کی سختیاں آپٴ پر روا رکھی جاتی تھیں اور متعدد بار آپٴ کو بے جرم و خطا جلاوطن کیا گیا۔ چنانچہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اس زمانے کے حکمرانوں کے پاس آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے امامٴ کو تکلیف پہنچانے کی فرصت نہیں تھی اور آپٴ پورے اطمینان کے ساتھ علمی تحریک کی رہنمائی میں مصروف تھے، یہ بات بطورِ مطلق قابلِ قبول نہیں ہے۔ بلکہ امام صادقٴ اموی اور عباسی خلفائ کی جانب سے وقتاً فوقتاً پہنچائی جانے والی اذیتوں کے باوجود مناسب موقعوں سے فائدہ اٹھا کر علمی تحریک کو فروغ دیتے رہے ۔ علمی جدوجہد کی اصل وجہ یہ تھی کہ جہاد و منفی جدوجہد کے دوسرے راستے مسدود تھے۔ اسی لئے امامٴ تقیہ کرنے پر بھی مجبور ہوگئے تھے۔ کیونکہ خلفائ اس موقع کی تلاش میں تھے کہ معمولی سا بہانہ ڈھونڈھ کر امامٴ کو راستے سے ہٹا دیں۔ چنانچہ عباسی خلیفہ، منصور کہتا ہے: ’’جعفر بن محمد (علیہ السلام) میرے گلے میں ہڈی کی طرح سے (پھنس گئے) ہیں کہ نہ میں نگل سکتا ہوں اور نہ اُگل سکتا ہوں۔‘‘ امام جعفر صادقٴ کا دورِ امامت: بطورِ کلی، حضرت علیٴ سے لے کر گیارہویں امام، حضرت امام حسن عسکریٴ تک کے ائمہ طاہرین کے ادوار کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ١۔ خانہ نشینی کا دور یعنی ٢٥ سال کی وہ مدت کہ جب امیر المومنینٴ رحلت نبی اکرم۰ کے بعد سے گھر میں تھے۔ ٢۔ امام کا مسندِ اقتدار پر متمکن ہونا کہ جس میں چار سال اور نو ماہ کی امام علیٴ کی حکومت اور امام حسنٴ کی خلافت کے چند سال شامل ہیں۔ ٣۔ صلحِ امام حسنٴ اور شہادت امام حسینٴ تک کا دور۔ ٤۔ ظالم حکمرانوں کی جانب سے انتہائی سختیوں اور جلاوطنیوں کا دور ۔ اس میں چوتھے امامٴ سے گیارہویں امامٴ تک کا زمانہ شامل ہے۔ امام جعفر صادقٴ کی زندگی کو بہتر طور پر جاننے کے لئے ائمہ کے زمانے کے اس آخری دور کا بغور جائزہ لینا چاہئے جس کا آغاز امام حسینٴ کی شہادت سے ہوا تھا۔ اس دور میں ائمہ طاہرینٴ کی پوری کوشش یہ تھی کہ بنیادی کام کرتے ہوئے خود غرض صاحبانِ اقتدار اور جاہل صاحبانِ فکر کی جانب سے اسلام کے اصلی راستے میں پیدا کئے جانے والے انحرافات کا مقابلہ کریں اور حکومتِ اسلامی کی تشکیل، احیائے قرآن و سنت اور نظامِ علوی کے نفاذ کے لئے طویل منصوبہ کے تحت کام کا آغاز کریں۔ امام صادقٴ کی علمی اور ثقافتی تحریک ١۔ راویوں کی تربیت: طویل مدت تک نقلِ احادیث پر پابندی کی وجہ سے احادیث نبی اکرم۰ اور روایاتِ اہلِ بیتٴ کو نقل کرنے کی شدید ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ چنانچہ امام صادقٴ نے مختلف حوالوں سے راویوں کی تربیت کا سلسلہ شروع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ چھٹے امامٴ سے ہر موضوع پر حدیث روایت ہوئی ہے اور مذہبِ تشیع کو مذہبِ جعفری کہنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ یہ راوی مختلف علوم میں ہزاروں احادیث یاد کر کے فکری انحراف کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ امام جعفر صادقٴ فرماتے تھے: ’’ابان بن تغلب نے مجھ سے تیس ہزار حدیثیں روایت کی ہیں، تم انہیں دوسروں کے لئے روایت کر سکتے ہو۔‘‘ محمد بن مسلم نے سولہ ہزار حدیثیں امامٴ سے سیکھیں۔ حسن بن وشّائ کہتا ہے: ’’میں نے مسجدِ کوفہ میں نو سو راویوں کو دیکھا جو سب یہ کہتے تھے : جعفر بن محمدٴ نے مجھ سے یوں فرمایا۔‘‘ اتنی بڑی تعداد میں راویوں کی پرورش سے مختلف زمانوں میں سرچشمہ امامت سے روایت کرنے والوں کی کمی خاصی حد تک دور ہوگئی۔ ٢۔ شاگردوں کی تربیت: امام جعفر صادقٴ نے شاگردوں کی تربیت بھی کی تاکہ وہ دینی شبہات کا جواب دے سکیں۔ ہشام بن حکم، ہشام بن سالم، مومن الطاق، محمد بن نعمان، حمران بن اعین وغیرہ ایسے ہی شاگرد تھے۔ یہ سب عظیم علمی شخصیات تھے جنہوں نے بڑی خدمات انجام دیں۔ ان میں سے دو کا تذکرہ کرتے ہیں: ہشام بن حکم: ہشام بن حکم دوسری ہجری کے آغاز میں کوفہ میں متولد ہوئے۔ شہر واسط میں پرورش پائی اور بعد میں بغداد کا سفر اختیار کیا۔ نوجوانی کے دور سے ہی ان کے سر میں سودا سمایا ہوا تھا اور وہ علم و معرفت کے شیدائی تھے۔ انہوں نے اس مقصد کی خاطر اپنے زمانے کے علوم سیکھے یہاں تک کہ ایک یونانی فلسفی کی رد میں کتاب بھی لکھی۔ |