المرتضی فاونڈیشن

ایک دینی، فرهنگی، و فلاحی اداره

المرتضی فاونڈیشن

ایک دینی، فرهنگی، و فلاحی اداره

مقام حسین (ع) سنی مآخذ کی روشنی میں

مقام حسین (ع) سنی مآخذ کی روشنی میں
 
 

محرم وہ مہینہ ہے جس میں حق وباطل کی وہ تاریخی جنگ لڑی گئی جو رہتی دنیا تک آزادی وحریت کے متوالوں کے لئے ظلم وجبر سے مقابلے کی راہ دکھاتی رہے گی۔
حقیت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا
حق وباطل کے اس معرکے میں ایک طرف فرزند رسول جگر گوشہ بتول (ع)حضرت امام حسین (ع)تھے ،تو دوسری طرف ظالم وجابر اور فاسق وفاجر حکمراں یزید پلیدتھا ۔حضرت امام حسین (ع) نے یزید کے خلاف علم جہاد اس لئے بلند کیا کہ اس نے بیت اللہ الحرام اور روضۂ نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کے علاوہ اسلام کی زریں تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہوئے ہر قسم کی براوئیوں کوفروغ دیا ،اورایک بار پر دور جاہلیت کے باطل اقدارکو زندہ کر کے اس دین مبین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی ،جس کی خاطر پیغمبر اکرم نے 23برس تک اذیت وتکلیف برداشت کی تھی ۔ حضرت امام حسین دین اسلام کے وہ محافظ ہیں جنہوں نے اپنے خون مطہر ہ سے اسلام کے درخت کی آبیاری کی ،اسی لئے ایک معاصر عربی ادیب نے کہا ہے:اسلام قیام کے لحاظ سے محمدی ہے اور بقا کے اعتبار سے حسینی مذہب ہے۔ آج ہم اپنے اس پروگرام میں احادیث رسول وسنت نبوی کی روشنی میں اہل سنت کے معتبر ماخذ سے حضرت امام حسین کے اعلی مقام ومنزلت پرروشنی ڈالیں گے۔

مقام حسین (ع) سنی مآخذ کی روشنی میں


محرم وہ مہینہ ہے جس میں حق وباطل کی وہ تاریخی جنگ لڑی گئی جو رہتی دنیا تک آزادی وحریت کے متوالوں کے لئے ظلم وجبر سے مقابلے کی راہ دکھاتی رہے گی۔
حقیت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا
حق وباطل کے اس معرکے میں ایک طرف فرزند رسول جگر گوشہ بتول (ع)حضرت امام حسین (ع)تھے ،تو دوسری طرف ظالم وجابر اور فاسق وفاجر حکمراں یزید پلیدتھا ۔حضرت امام حسین (ع) نے یزید کے خلاف علم جہاد اس لئے بلند کیا کہ اس نے بیت اللہ الحرام اور روضۂ نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کے علاوہ اسلام کی زریں تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہوئے ہر قسم کی براوئیوں کوفروغ دیا ،اورایک بار پر دور جاہلیت کے باطل اقدارکو زندہ کر کے اس دین مبین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی ،جس کی خاطر پیغمبر اکرم نے 23برس تک اذیت وتکلیف برداشت کی تھی ۔ حضرت امام حسین دین اسلام کے وہ محافظ ہیں جنہوں نے اپنے خون مطہر ہ سے اسلام کے درخت کی آبیاری کی ،اسی لئے ایک معاصر عربی ادیب نے کہا ہے:اسلام قیام کے لحاظ سے محمدی ہے اور بقا کے اعتبار سے حسینی مذہب ہے۔ آج ہم اپنے اس پروگرام میں احادیث رسول وسنت نبوی کی روشنی میں اہل سنت کے معتبر ماخذ سے حضرت امام حسین کے اعلی مقام ومنزلت پرروشنی ڈالیں گے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ایک حدیث نقل کی ہے جس کو ان کے علاوہ دیگر اکابرین اہل سنت من جملہ ، ابن ماجہ ، ابو بکر سیوطی ۔ترمزی ، ابن حجر ، حاکم ، ابن عساکر ، ابن اثیر ، حموینی ، نسائی وغیرہ نے بھی مستند حوالوں کے ساتھ حضور اکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :الحسن ولحسین سیدا شبا ب اہل الجنۃ’’ حسن وحسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔
اس حدیث کے راویوں میں حضرت علی کے علاوہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل ہیں ،جن میں حضرت عمر وابو بکر ، ابن مسعود ، حذیفہ ، جابر بن عبداللہ ، عبد اللہ بن عمر ، قرہ ، مالک بن الحویرث بریدہ ، ابو سعید خذری ، ابوہریرہ ، انس ، اسامہ اور براء قابل ذکر ہیں۔
حضرت امام حسین کے بارے میں پیغمبر اکرم کی ایک اور مشہور حدیث ہے:
’’حسین منی وانا من حسین ‘‘(حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں)
اس حدیث میں آپ کے ساتھ امام حسین کے خونی رشتے کے علاوہ دونوں بستیوں کے روحانی اور معنوی روابط کی صراحت ملتی ہے، جس کی تعبیر یہ ہے کہ دین اسلام جس کی بنیا د رسول خدا د نے رکھی تھی ، اس کا تحفظ حضرت امام حسین نے کیا۔ اس حدیث کو شیعہ مآخذ کے علاوہ تواتر کے ساتھ سنی مآخذ میں بیان کیاگیا ہے ،اور بعض مآخذ میں اس جملے کے ساتھ دیگر جملے بھی نقل کئے گئے ہیں ،جن میں حضرت امام حسین کے ساتھ حضور اکرم ﷺکی شدید محبت کا اظہار ہوتا ہے ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے حسین سے محبت کی ،اس نے اللہ سے محبت کی ‘‘نیز فرمایا ہے:خدایا جس نے ان دونوں حسنین سے دشمنی کی میں بھی اس کا دشمن ہوں، بعض سنی مآخذ میں ایسے الفاظ بھی اس حدیث کے ساتھ نقل کئے گئے ہیں۔ جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ان لوگوں سے صلح وآشتی چاہتے ہیں جو حضرات حسنین کریمین کے ساتھ امن وسلامتی سے رہیں ،اور ان کے ساتھ آپ نے جنگ کا اعلان کیا ہے ،جو حسنین کے ساتھ جنگ وجدال کے لئے آمادہ ہوتے ہیں۔‘‘حسین مجھ سے ہے ،اور میں حسین سے ہوں‘‘والی حدیث کو نقل کرنے والے سنی اکابرین میں ابن ماجہ ، ترمزی ، ابوہریرہ ، نسائی ، ابن اثیر ، سیوطی ، امام احمد بن حنبل اور طبر ی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت امام حسین کی عظمت اور پیغمبر اکرم کی ان سے فرط محبت کا اندازہ ابو ہریرہ کی اس روایت سے بھی کر سکتے ہیں۔ ابن عبد البر قرطبی نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:’’میںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے سنا ہے ،کہ پیغمبر اکرم امام حسین کے دونوں ہاتھوں کو تھامے ہوئے تھے۔ اور امام حسین کے دونوں پاؤں پیغمبر اکرم کے پاؤںپرتھے ، آپ نے فرمایا :اوپر آمیر ا بیٹا، امام حسین اوپر چلے گئے ،اور آپ نے سینہ پیغمبر پر پاؤں رکھا ، اس وقت آپ نے فرمایا :حسین منہ کھولو ، اس کے بعد حضور نے امام نے حسین کو چوما اورفرمایا :پروردگار اس سے محبت کر ، اس لئے کہ میں اس کو چاہتا ہوں، اہل سنت کے مآخذ اور مشہور سنی محدثین ومؤ رخین کی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حسنین سے دوستی مومنین پر فرض ہے اوران سے محبت کے بغیر کسی سخص کا ایمان کامل نہیں ہوتا، اور ان سے مقابلہ کرنے والا یا بغض رکھنے والا ان مآخذ کی روشنی میں خدا اور رسول خدا کا دشمن قرار پاتا ہے۔ ترمزی ، ابن ماجہ ، ابن حضر ، امام احمد بن حنبل ، حاکم ، ابوبکر سیوطی ، ابو سعید خدری ، سبط ان الجوزی ، عباس خلیفہ ہارون الرشید ، مؤ رخ طبری حضرات وغیرہ نے عبداللہ بن عمر ،یعلی بن مرہ ، سلمان فارسی وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے ایسی احادیث نقل کی ہیں ،جن کا مفہوم یہ ہے کہ حضور نے ان لوگوں سے محبت ودوستی کا اظہار فرمایا ہے جو حسنین کریمین سے محبت ودوستی رکھتے ہیں ،اور ان لوگوںکے ساتھ نفرت وعناد کا اعلان فرمایا ہے ،جو امام حسن وامام حسین سے دشمنی رکھتے اور بغض کا اظہار کرتے ہیں۔ نیز ان احادیث میںان لوگوں کے لئے جنت نعیم کی بشارت دی گئی ہے جو حسنین سے محبت کرتے ہیں ،اور ان لوگوں کے جہنم واصل ہونے کی خبر دی گئی ہے جو ان دونوں سے بغض وعناد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے بعض حوالوں میں حضرت حسین کے ماں باپ کا بھی ذکر ہے اور یہ ارشاد نبوی نقل کیا گیاہے کہ ’’جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں (حسنین )اور ان کے ماں باپ سے محبت کی ، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے برابر مقام پائے گا۔ ‘‘ان مفاہیم کی حامل احادیث میں ایک وہ حدیث بھی شامل ہے جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر ہیں اور اس کوابن عبد البر ، ابو حاتم اور محب طبری نے روایت کی ہے ۔ حدیث میںکہا گیا ہے کہ حضور نے امام حسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
من احبنی فلیحب ہذین(جس نے مجھ سے محبت کی، اسکو چاہئے کہ ان دونوں سے بھی محبت کرے)
مذکورہ احادیث نبوی کی روشنی میںیہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اہل بیت رسول کے ساتھ دشمنی رسول خدا کے ساتھ دشمنی کے متردف ہے ،اور ان سے محبت کا مطلب خدا ورسو ل سے چاہت کا اظہار ہے۔ ان احادیث کے مفاہیم کوایمان کے اصول وشرائط کے تحت پرکھنا چاہئے ،کیوںکہ تکمیل ایمان کی شرط عشق رسول ہے، جس کے بغیر مسلمان اخروی فلاح نہیں پا سکتا چنانچہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں۔
اسی طرح آل محمد سے عشق ومحبت کے بغیر عشق رسول ادھورا ہے ،جس کا مقصد ایمان میں نقص ہے، لیکن کربلا میں یزید لعین نے ہزاروں افراد کا لشکر بھیج کر ، نہ صرف اہل بیت رسول کی توہین کی، بلکہ رسول اللہ کے اس نواسے کو بے دردی سے شہید کیا،جس کی محبت کو پیغمبر اسلام نے امت پر فرض قرار دیا تھا ،ہم محرم الحرام اور عزاداری حسین کے ساتھ ان ایام میں مسلمان عالم کے علاوہ حق وحقیقت او رحریت وآزادی کے علمبر دار وں کو تسلیت پیش کرتے ہیں۔

امر به معروف در نهضت حسینى علیه السلام

امر به معروف در نهضت حسینى علیه السلام


عباس کوثرى

مکتب زیارت

زائر در سفر معنوى زیارت به دیدار آمران به معروف و الگوهاى نهى از منکر مى رود و گامهاى بلند آنان در جهت پاسدارى از ارزشها را یادآور مى شود. از این مقال به نمونه هایى از «معروف گرایى » و «منکرستیزى » از درسهاى «مکتب زیارت » آشنا مى شویم.
امام حسین (علیه السلام) در بیان هدف خودش از نهضت الهى و عظیم عاشورا از امر به معروف و نهى از منکر یاد مى کند و مى فرماید: و انما خرجت لطلب الاصلاح فى امة جدى ارید ان آمر بالمعروف و انهى عن المنکر: من بدین هدف (از مدینه) بیرون آمدم که امت جد خویش را اصلاح نمایم و تصمیم دارم امر به معروف و نهى از منکر کنم.
جهت معرفى امر به معروف و نهى از منکر به نمونه هایى از آن اشاره مى کنیم.
الف - نهى از همکارى با ستمگران

1.
امام صادق (علیه السلام) به یکى از شیعیان خود به نام «عذافر» فرمود: بلغنى انک تعامل «ابا ایوب » و «ابا الربیع » فما حالک اذا نودى بک فى اعوان الظلمة: به من اینگونه خبر رسیده که با «ابى ایوب » و «ابا الربیع » همکارى مى کنى! حالت چگونه خواهد بود اگر تو را در قیامت در ردیف همکاران ظالمان صدا بزنند. چون «عذافر» چهره در هم کشید. حضرت فرمود: من تو را به چیزى ترساندم که خداوند مرا به او ترسانده است.

2.
صفوان جمال از یاوران و اصحاب امام موسى بن جعفر(علیهماالسلام) شترهاى خویش را به هارون اجاره مى دهد و پس از اینکه خدمت حضرت مى رسد با این کلمات مورد عتاب قرار مى گیرد که «کل شى ء منک حسن جمیل ما خلا شیئا واحدا» همه کارهاى تو نیکوست مگر یکى از آنها. از حضرت مى پرسد: فدایت شوم، کدامیک از کارها؟ امام مى فرماید: کرایه دادن شترهایت به هارون الرشید! عرضه مى دارد به خدا قسم که من فقط آنها را براى رفتن او به مکه داده ام بدون اینکه حتى خودم به همراه او باشم. حضرت مى فرماید: آیا دوست دارى آنها تا هنگام پرداخت کرایه شترانت زنده بمانند؟ مى گوید: بلى! امام مى فرماید: «من احب بقائهم فهو منهم و من کان منهم کان وروده على النار» هر کس زنده بودن آنها را دوست بدارد از آنها خواهد بود و همراه آنها به آتش وارد خواهد شد. پس از فرمایش امام (علیه السلام) بود که صفوان به بهانه اینکه پیر شده است و توان اداره شتران خویش را ندارد تمامى آنها رافروخت.
ب - نهى از منکر در کاخ خلیفه ستمگر عباسى
نزد متوکل خلیفه عباسى از امام على النقى (علیه السلام) سعایت کردند که قصد شورش علیه حکومت تو را دارد. از این رو دستور داد شبانه امام (علیه السلام) را نزد او بیاورند. متوکل چون امام را دید احترام کرد و آن حضرت را در کنار خود نشاند، سپس جام شرابى را به امام تعارف کرد! حضرت سوگند یاد کرد که گوشت و خون من با چنین چیزى آمیخته نشده است، مرا معاف دار. او دست برداشت و گفت شعرى بخوان. حضرت فرمود: من چندان از شعر بهره اى ندارم. متوکل گفت: چاره اى از آن نیست.

امام اشعارى خواند که ترجمه آن چنین است: زمامداران جهانخوار و مقتدر بر قله کوهسارها شب را به روز درآوردند درحالى که مردان نیرومند از آنان پاسدارى مى کردند ولى قله ها نتوانستند آنان را از خطر مرگ برهانند. آنان پس از مدتها عزت از جایگاههاى امن به زیر کشیده شدند و در گودالها و گورها جایشان دادند. چه منزل و آرامگاه ناپسندى! پس از آنکه به خاک سپرده شدند فریادگرى فریاد برآورد کجاست آن دستبندها و تاجها و لباسهاى فاخر؟ کجاست آن چهرهاى در ناز و نعمت پرورش یافته که به احترامشان پرده ها مى آویختند؟ گور به جاى آن پاسخ دهد: اکنون کرمها بر سر خوردن آن چهره ها با هم مى ستیزند. آنان مدت درازى در دنیا خوردند و آشامیدند ولى امروز آنان که خورنده همه چیز بودند خود خوراک حشرات و کرمهاى گور شده اند. چه خانه هایى ساختند تا آنان را از گزند روزگار حفظ کنند ولى سرانجام پس از مدتى این خانه ها و خانواده ها را ترک گفته به خانه گور شتافتند. چه اموال و ذخایرى انبار کردند ولى همه آنها را ترک گفته رفتند و آنها را براى دشمنان خود واگذاشتند خانه ها و کاخهاى آباد آنان به ویرانه تبدیل شد و ساکنان آنها به سوى گورهاى تاریک شتافتند.
متوکل از شنیدن این اشعار گریست به اندازه اى که از اشک چشمش ریشش تر شد و جام شراب را بر زمین زد و بساط عیاشى و هرزگى اش برچیده شد.
ج - جلوگیرى از شبهه پراکنى
اسحاق کندى که از فلاسفه عراق به شمار مى آمد در زمان خود تالیف کتابى به نام «تناقضات قرآن » را آغاز کرد. او مدتهاى زیادى در منزل نشسته و خود را به نوشتن آن کتاب مشغول ساخته بود. تا آنکه یکى از شاگردان او به دمت حضرت امام حسن عسکرى (علیه السلام) رسید. حضرت به او فرمود: آیا در میان شما مردى رشید وجود ندارد که استادتان کندى را از کارش باز داشته برگرداند. شاگرد گفت: ما شاگرد او هستیم و نمى توانیم به اشتباه او اعتراض کنیم.
امام فرمود: اگر مطالبى به تو تفهیم شود مى توانى به او برسانى؟ گفت: آرى.
امام فرمود: از اینجا که برگشتى با او به لطف و مدارا رفتار کن و هنگامى که کاملا با او انس گرفتى به او بگو مساله اى به نظرم رسیده مى خواهم آن را از تو بپرسم و آن این است که: آیا ممکن است گوینده قرآن از گفتار خود، معنایى غیر از آنچه تو گمان کرده اى اراده کرده باشد؟ او در پاسخ خواهد گفت: بلى ممکن است زیرا که او مرد باهوشى است. پس به او بگو شما چه مى دانید شاید گوینده قرآن معانى دیگرى غیر از آنچه تو براى آن حدس زده اى اراده کرده باشد.
شاگرد به نزد کندى رفت و طبق دستور امام سؤال را مطرح کرد. فیلسوف با کمال دقت به سؤال شاگرد گوش داد و فت سؤال خود را تکرار کن. او سؤال را تکرار نمود. استاد فکرى کرد و گفت: بلى امکان دارد که چیزى در ذهن گوینده سخن باشد که شنونده، خلاف آن را فهمیده باشد.
استاد که سؤال فوق را دقیق یافت رو به شاگرد کرد و گفت: قسم مى دهم تو را که بگویى این سؤال را از کجا آموختى؟ شاگرد گفت: همین طور به ذهنم خطور کرد. کندى گفت: این کلامى نیست که از مانند تو صادر شود. به من بگو از کجا آن را یاد گرفتى؟ شاگرد گفت: امام حسن عسکرى (علیه السلام) مرا به آن امر فرمود. کندى گفت: آرى این مطالب فقط بر قامت این خاندان زیبندگى دارد. سپس دستور داد آتشى روشن کنند و تمام آنچه در این باره تالیف کرده بود سوزانید.
در زیارتنامه هاى معصومین (علیهم السلام) امر به معروف و نهى از منکر یکى از شاخص هاى اساسى و مهم زندگى آنها به شمار آمده است. چنانکه در زیارت جامعه آمده است «وامرتم بالمعروف و نهیتم عن المنکر و جاهدتم فى الله حق جهاده حتى اعلنتم و بینتم فرائضه »: امر به معروف و نهى از منکر نمودید و حق جهاد را در دین خدا بجا آوردید تا آنکه دعوت الهى را آشکار ساخته، واجباتش را بیان نمودید.
نیز در زیارت امام حسین (علیه السلام) در حرم امیرالمؤمنین (علیه السلام) مى خوانیم: «و امرت بالمعروف و نهیت عن المنکر و تلوت الکتاب حق تلاوته »: امر به معروف و نهى از منکر نمودى و قرآن را چنانکه شایسته است خواندى.
اما آنچه در این مساله اهمیت ویژه دارد شناخت شیوه هایى است که معصومین(علیهم السلام) به منظور به کار بستن این دو فریضه مهم یعنى امر به معروف و نهى از منکر انجام مى دادند، که باختصار به چند مورد آن اشاره مى کنیم.

شیوه هایى از معصومین(علیهم السلام)

1. محبت و نرمخویى
زمانى که حضرت موسى به همراهى برادرش هارون ماموریت مى یابد که به سوى فرعون حرکت کند و او را به توحیدفرا خواند شیوه و دستورالعمل الهى براى آنها این گونه مقرر مى شود: «و قولا له قولا لینا لعله یتذکر او یخشى »: با فرعون به نرمى سخن گویید شاید به یاد خدا افتد و ترس خدا را پیشه کند.
یکى از عوامل مهم موفقیت رسول گرامى اسلام نیز محبت و نرمخویى آن حضرت به شمار آمده است. قرآن کریم در این زمینه مى فرماید: «و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک »: اگر تندخو و سخت دل بودى مردم از گرد تو متفرق مى شدند.
و در باره آن حضرت نقل شده است: به هنگامى که یکى از کافران با تندى به آن بزرگوار پرخاش کرد اصحاب تصمیم گرفتند با او به ستیز و نزاع برخیزند و حضرت آنها را نهى کرد و خود نسبت به آن مرد کافر محبت فراوان نمود و با خوشرویى از او استقبال کرد به حدى که آن فرد تحت تاثیر الطاف آن حضرت قرار گرفت و اسلام آورد. سپس حضرت رو به اصحاب خود فرمود: مثل من و شما همانند فردى است که شترش سرکش شده باشد و هر یک از مردم به آن شتر نهیبى زنند و آن شتر وحشى تر شود. اما صاحب شتر مى گوید من خود آشناترم، اجازه دهید خودم او را رام مى کنم. و سپس صاحب آن او را رام مى کند. چنانکه دیدید که این فرد رام شد و اسلام را انتخاب نمود.
نمونه دوم: فردى از اهل شام که نسبت به اهل بیت عصمت و طهارت دشمنى دیرینه داشت به مدینه مى آید و به امام حسن و پدرش(علیهما السلام) اهانت مى کند. امام حسن (علیه السلام) با خوشرویى و کلمات ملاطفت آمیز با او برخورد مى کند. شامى که خود را در مقابل اقیانوسى از بزرگوارى و فضیلت مشاهده مى کند، مى گوید: پیش از آنکه تو را ملاقات کنم تو و پدرت دشمن ترین مردم نزد من بودید و اکنون محبوبترین فرد نزد من هستید. و بدین ترتیب در ردیف دوستداران و معتقدان خاندان پیامبر قرار گرفت.
نمونه چهارم: زهیر بن قین از افرادى بود که دوست نمى داشت با امام حسین (علیه السلام) روبرو شود. همراهان او مى گویند ما جمعى بودیم که به هنگام مراجعت از مکه وقتى در بین راه به امام حسین مى رسیدیم از او کناره مى گرفتیم زیرا که حرکت به همراهى حضرت ناخوشایندمان بود. در یکى از منازل بین راه مجبور به ماندن در محلى شدیم که امام حسین (علیه السلام) نیز در آنجا بود. امام قاصدى را به سوى زهیر روانه کرد و از او خواست که با حضرت ملاقات کند. زهیر به خدمت حضرت رفت و زمانى نگذشت که شاد و خرم با چهره اى برافروخته برگشت و دستور داد که خیمه او را نزدیک سراپرده حضرت نصب کنند. بدین گونه بود که با برخورد نیک امام حسین (علیه السلام) در ردیف شهداى کربلا قرار گرفت.
نمونه پنجم: وقتى که مردى نصرانى به امام باقر (علیه السلام) جسارت فراوان مى کند حضرت به او مى فرماید: «ان کنت صدقت غفر الله لها و ان کنت کذبت غفر الله لک »: اگر آنچه گفتى راست است خداوند از کرده مادر من درگذرد و اگر دروغ مى گویى خداى تو را بیامرزد. راوى اضافه مى کند: چون مرد نصرانى این بردبارى و بزرگوارى را که از حوصله بشر بیرون است دید و پشیمان شد و مسلمانى اختیار کرد.

2.
دورى از دشنام
قرآن، کلام زیباى حق است و پیروان خویش را دعوت کرده است که با مردم به نیکى سخن بگویند «و قولوا للناس حسنا» و از اینکه حتى به کافران دشنام داده شود نهى کرده است. چنانکه مى فرماید: «و لا تسبوا الذین یدعون من دون الله فیسبوا الله عدوابغیر علم »: به آنان که غیر خدا را مى خوانند دشنام ندهید تا مبادا آنها از روى جهالت خدا را دشنام دهند.
گویا امیرمؤمنان (علیه السلام) به هنگامى که مشاهده مى کند یکى از اصحابش به سپاه معاویه دشنام مى دهد، مى فرماید: «انى اکره ان تکونوا سبابین »: من دوست ندارم که شما دشنام دهنده باشید. و در یکى از نقلها آمده است که به حجر بن عدى و عمرو بن حمق فرمود: «کرهت ان تکونوا لعانین شتامین، ... و لکن لو وصفتم مساوى اعمالهم فقلتم من سیرتهم کذا و کذا و من اعمالهم کذا و کذا کان اصوب فى القول ». ناخوشایند است براى من که شما را دشنامگر ببینم ولى اگر اعمال بد و سیره ناپسند آنها را بیان کنیدبهتر خواهد بود. آن دو گفتند: اى امیرمؤمنان، ما موعظه ات را به جان و دل پذیراییم و خود را با آدابى که به ما مى آموزى مؤدب خواهیم ساخت.
به همین سبب بود که امام صادق (علیه السلام) دوستى چندین ساله خویش را با فردى که به غلام و خدمتگزارش فحش و ناسزا گفت، قطع نمود.

3.
برخورد استدلالى و حکمت آمیز
اساس دعوت پیامبران الهى را حکمت تشکیل مى دهد. آن بزرگواران به هنگام برخورد با کافران و ملحدان محکم ترین استدلالها را بیان مى کردند نمونه هایى از آن را قرآن کریم در داستان ابراهیم (علیه السلام) و برخورد آن حضرت با ستاره پرستان و معتقدان به الوهیت خورشید و ماه بیان نموده است. و بر این اساس است که تعلیم وآموزش حکمت یکى از فلسفه هاى بعثت پیامبر خاتم صلى الله علیه و آله به شمار آمده است چنانکه در سوره جمعه مى خوانیم: «هو الذى بعث فى الامیین رسولا منهم یتلوا علیهم آیاته و یزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة »: اوست خدایى که میان مردمان درس نیاموخته پیغمبرى از خود آنها برانگیخت تا بر آنان آیات وحى خدا را تلاوت کند و آنها را پاکیزه سازد و به آنها کتاب و حکمت آموزش دهد. و در پى همین هدف است که پیامبر گرامى اسلام(ص) از سوى خداوند ماموریت مى یابد که: «ادع الى سبیل ربک بالحکمة و الموعظة الحسنة »: مردم را به راه پروردگارت بر اساس حکمت و پندهاى نیک دعوت کن.
تاریخ زندگى آن حضرت تجسم صفحات زرینى از این گونه رفتارهاست به طورى که این امر مورد اعتراف مخاطبان آن حضرت قرار مى گرفت و بر همین اساس به اسلام مى گرویدند. در یکى از نقلها آمده است هر موقع پیامبر اکرم متوجه مى شد که شخصیتى از عرب وارد مکه شده است با او تماس مى گرفت و آیین خود را به وى عرضه مى داشت. روزى شنید که «سوید بن صامت » وارد مکه شده است. فورا با او ملاقات نمود و حقایق نورانى آیین خود را براى او تشریح کرد. وى فت شاید این حقایق همان حکمت لقمان است که البته من هم مى دانم. حضرت فرمود: گفته هاى لقمان نیکوست ولى آنچه خدا بر من نازل فرموده است بهتر و بالاتر است زیرا آن مشعل هدایت و نورافکن فروزانى است. سپس حضرت آیاتى چند براى او خواند و وى نیز آیین اسلام را پذیرفت.
اصولا احتجاجات و استدلالهاى معصومین(علیهم اسلام) با مذاهب و مکاتب مختلف نمونه خوبى از برخوردهاى حکمت آمیز مى باشد که کتاب «احتجاج مرحوم طبرسى » و کتابهایى از این قبیل، آیینه اى از این نوع برخوردهاست. اینکه امام رض (علیه السلام) به (عالم آل محمد«ص ») لقب یافته است همین احتجاجات و برخوردهاى استدلالى و کلامى آن حضرت یا ادیان و مکاتب گوناگون بوده است زیرا این زمینه براى آن بزرگوار بیش از معصومین دیگر فراهم بوده است.
در خاتمه به اعتراف یکى از منکران توحید به نام ابن ابى العوجاء که در باره برخوردهاى حکمت آمیز امام صادق (علیه السلام) ذکر نموده است مى پردازیم. مفضل در مقدمه کتاب خود (توحید) مى گوید در یکى از روزها در مسجد پیامبر(ص) به ابن ابى العوجاء برخوردم در حالى که سخنان کفرآمیزى بر زبان مى راند. از شدت خشم نتوانستم خوددارى کنم و گفتم اى دشمن خدا، ملحد شدى و پروردگارى که تو را به نیکوترین ترکیب آفریده و از حالات گوناگون گذرانده انکار کردى ...!
ابن ابى العوجاء گفت: اى مرد اگر تو از متکلمانى با تو به روش آنان سخن بگویم. و اگر از یاران جعفر بن محمد صادق هستى او خود با ما چنین سخن نمى گوید. او از سخنان ما بیش از آنچه تو شنیدى بارها شنیده ولى دشنام نداده است و در بحث بین ما و او از حد و ادب بیرون نرفته است. او بردبار و آرام و متین و خردمند است و هرگز خشم و سفاهت بر او چیره نمى شود. سخنان و دلایل ما را مى شنود تا آنکه هر چه در دل داریم به زبان مى آوریم. گمان مى کنیم بر او پیروز شده ایم آنگاه با کمترین سخن دلایل ما را باطل مى سازد و با کوتاهترین کلام حجت را بر ما تمام مى کند چنان که نمى توانیم پاسخ دهیم. اینک اگر تو از پیروان او هستى چنانکه شایسته اوست با ما سخن بگو. و بر این مبناست که در زیارتنامه معصومین(علیهم السلام) مى خوانیم:

«
و نصحتم له فى السر و العلانیة و دعوتم الى سبیله بالحکمة و الموعظة الحسنة و بذلتم انفسکم فى مرضاته »: به خاطر خدا مردم را در پنهان و آشکار نصیحت کردید و به راه حق یا برهان و حکمت و پند و موعظه نیکو دعوت کردید و در راه خشنودى خدا از جان خود گذشتید.


 

منبع اصلی : مجله فرهنگ کوثر، شماره 6