تربیت کا اثرتحریر: سید حیدر عباس عابدی | ![]() |
یزید بن معاویہ کا ایک بیٹا تھا جو اسے بہت عزیز تھا۔ اسی لئے یزید نے اس کا نام اپنے باپ کے نام پر معاویہ رکھا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس بچے کی اپنے مزاج کے مطابق تربیت کرے تاکہ وہ اس کا حقیقی جانشین بن سکے۔ جب معاویہ بن یزید اس عمر کو پہنچا کہ اسے لکھنا پڑھنا سکھایا جائے تو اس کے لئے اس وقت کے ایک بہت قابل استاد ’’عمر المقصوص‘‘ کو منتخب کیا گیا۔ یہ شخص اہلبیت علیہم السلام سے محبت اور یزید اور اس کے اجداد سے شدید نفرت کرتا تھا لیکن چونکہ یزید اس بات کو نہیں جانتا تھا اسی لئے معاویہ بن یزید کو اس کی شاگردی میں دے دیا۔ اس استاد نے معاویہ بن یزید کو قرآن کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا اور ساتھ ہی اہلبیت کی عظمت اور منزلت کا بھی بتایا اور ان کی محبت کا دیا معاویہ کے دل میں روشن کر دیا۔ یزید ملعون کا یہ بیٹا ابھی بیس سال کا ہی تھا کہ اس کا باپ جہنم رسید ہوا اور لوگوں نے معاویہ بن یزید کو مسلمانوں کا خلیفہ تسلیم کرلیا۔ بیس سال کی عمر جوانی کا ایسا دور ہے کہ جب انسانی خواہشات کی منہ زوری عروج پر ہوتی ہے۔ یزید کا جانشین ہونا اور پوری اسلامی مملکت پر حکمرانی کرنا اپنی تمام جائز و ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کے لئے بہترین موقع تھا۔ لیکن معاویہ بن یزید چالیس دن تک تختِ خلافت پر بیٹھا اور ان چالیس دنوں میں اس نے اپنے باپ اور اجداد کے شرمناک کارناموں کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیا۔ جب اس نے دیکھا کہ ان لوگوں کی چند سالہ زندگی نے اسلام اور مسلمانوں کو کس قدر عظیم نقصانات پہنچائے ہیں تو اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک دوراہے پر کھڑا ہے کہ حکومت کی باگ ڈور تھامے رہے اور ظلم و ستم اور عیش و عشرت کا بازار گرم رکھے یا تخت و تاج کو چھوڑ دے اور اپنے آپ کو ان ہولناک گناہوں اور ان کے دردناک عذاب سے دور رکھے۔ بالآخر اس نے فیصلہ کر ہی لیا۔ اس کا فیصلہ ان سچی تعلیمات اور اس ایمان کے طفیل ہی ممکن ہوا جو اس کے رگ و پے میں شامل ہوچکا تھا۔ اس نے ایک عزمِ راسخ کے ساتھ حکومت کے عہدیداروں اور عوام کو مسجد میں جمع کیا اور پھر خود منبر پر جابیٹھا۔ اس نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے خدا کی حمد کی اس کے بعد رسولِ اکرم ۰ پر درود بھیجا اور پھر وہ یوں گویا ہوا۔ ’’میرے جد (معاویہ) نے اس شخص سے تخت و خلافت کے لئے جنگ کی جو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اس مقام کا حقدار تھا۔ اسلام میں اس کاکردار سب سے زیادہ روشن تھا۔ شجاعت اور علم میں وہ سب سے آگے تھا۔ وہ سب سے پہلے ایمان لایا اور رسولِ خدا ۰ کے سب سے زیادہ نزدیک تھا۔ وہ رسول۰ کا چچازاد، فاطمہ زہرا کا شوہر اور سبطینٴ کا پدر تھا۔ پھر بھی جب میرے جد (معاویہ) نے اس سے جنگ کی تو تم سب نے میرے جد کا ہی ساتھ دیا اور میرے جد نے اس خلافت پر قبضہ کرلیا۔ اور وہ اس وقت تک قابض رہا جب تک اس کی موت نہ آپہنچی اور آج اپنی قبر میں اپنے اعمال اور اپنے ظلم و ستم کا جواب دے رہا ہوگا۔ اس کے بعد خلافت میرے باپ یزید کے حصہ میں آئی۔ وہ اپنے اعمال اور بدکرداری کی وجہ سے ہرگز اس کا اہل نہیں تھا لیکن وہ بھی اس پر قابض رہا اور اس کا نفس اسے بدترین کاموں کی ترغیب دیتا رہا۔ وہ اپنے برے کاموں پر بھی فخر کرتا تھا۔ اس نے بھی خدا کی بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کیا۔ رسول اللہ ۰ کی اولاد پر اس نے بدترین مظالم ڈھائے۔ لیکن اس کی حکومت کی مدت بہت تھوڑی تھی اور بہت جلد اس کی شرمناک زندگی کا خاتمہ ہوگیا۔ آج وہ بھی اپنے اعمال کے حساب کتاب میں الجھا ہوا ہوگا۔‘‘ جب معاویہ بن یزید کی بات یہاں تک پہنچی تو اس کا گلا رُندھ گیا۔ کافی دیر تک وہ بلند آواز سے روتا رہا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا: ’’اے لوگو! میں تمہارے گناہوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر نہیں اٹھا سکتا اور نہ تمہاری دوستی کا طوق اپنے گلے میں ڈالوں گا۔ اب تم خود جو بہتر سمجھو کرو، یا وہ حکومت کرے جس کا تم انتخاب کرو۔میں اپنی بیعت تم لوگوں پر سے اٹھاتا ہوں اور اس خلافت کو ٹھکراتا ہوں۔‘‘ معاویہ بن یزید کے ان جملوں نے محفل میں ایک طوفان برپا کردیا۔ سب حیرت او راضطراب سے ایک دوسرے کو تکنے لگے اور پھر زور زور سے شور مچانے لگے۔ ہر شخص اپنی رائے دے رہا تھا۔ مروان بن حکم جو منبر کے نزدیک ہی بیٹھا تھا اس نے کھڑے ہوکر معاویہ پر اعتراض کرنا چاہا جس پر معاویہ نے غصے سے چیخ کر مروان سے کہا: ’’مجھ سے دور ہوجا! کیا تو حیلے اور بہانے سے میرے ذہن میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ میں نے تمہاری خلافت کا مزہ نہیں چکھا ہے کہ تمہارے گناہوں کی ذمہ داری اٹھاوں۔ اگر یہ خلافت فائدہ مند چیز ہے تو افسوس کہ میرے باپ نے اس کے ذریعہ صرف اپنے گناہوں اور بدبختی میں اضافہ کیا ہے اور اگر یہ نقصان دہ چیز ہے تو جو بدبختی اس سے میرے باپ نے سمیٹی ہے، وہی کافی ہے۔ میں اپنے آپ کو اس سے آلودہ نہیں کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگا اور پھر منبر سے نیچے اتر آیا۔ بنو امیہ جس کے لئے یہ واقعہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا اور اس کے بعد خلافت ان سے چھن سکتی تھی وہ اس کا انتقام لینے کے لئے سب سے پہلے ’’عمر المقصوص‘‘ یعنی معاویہ بن یزید کے استاد کے پاس پہنچے اور اس سے کہنے لگے: تم نے اس طرح اس کی تربیت کی کہ آج اس نے خلافت کو ٹھکرا دیا۔ تم نے ہی اس کو بھڑکایا ہے کہ وہ سب کے سامنے بھرے مجمع میں اس طرح تقریر کرے اور بنی امیہ کے ظلم و ستم کو سب کے سامنے بیان کرے۔ اس کے بعد ان ظالموں نے اس عالم کو پکڑ کر ایک گڑھا کھودا اور اسے زندہ دفن کردیا۔ ٭¥٭¥٭ درجِ بالا تاریخی واقعہ دو اہم پہلووں کی طرف اشارہ کرتا ہے: پہلا یہ کہ بچے کی تربیت میں استاد کا کردار کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر معاویہ بن یزید کا استاد اس کی صحیح تربیت نہ کرتا تو وہ بھی اپنے اجداد کی طرح اس تختِ خلافت سے ناجائز فائدہ اٹھاتا اور دنیا کی چند روزہ زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے عیش و عشرت میں غرق رہتا۔ لیکن اس کے متقی اور عالم استاد نے اس کی تعلیماتِ قرآن و سیرتِ ائمہ علیہم السلام کی روشنی میں اس طرح تربیت کی تھی کہ یہ تخت و تاج بھی اس کے ارادے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر انسان حق کی جستجو میں ہو تو خداوندِ عالم اس کو باطل کی گمراہیوں سے نکال کر حق تک ضرور پہنچاتا ہے۔ اب یہ انسان کی مرضی ہے کہ وہ حق کو قبول کر کے اس سے وابستہ رہے اور خدا کے نیک بندوں میں اس کا شمار ہو یا حق سے منہ موڑ کر گمراہیوں میں پڑا رہے اور خدا کے عذاب کا حقدار ہو۔ |
مکاریوں کا جوابنورِ ہدایت | ![]() |
نکات: ٭ رسولِ اکرم ۰ کے چچا جنابِ عباس اور جنابِ شیبہ ایک دوسرے پر فخر جتا رہے تھے۔ عباس کہنے لگے، ’’یہ میرے لئے نہایت ہی فخر کی بات ہے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں‘‘ اور شیبہ کہنے لگے کہ ’’میں خانہ کعبہ کا کلیدبردار ہوں‘‘۔ اس پر حضرت علی نے فرمایا: ’’میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ آپ لوگوں سے کم سن ہوں لیکن آپ لوگ میری شمشیر اور جہاد کی وجہ سے ایمان لائے ہو‘‘۔ حضرت عباس کو یہ بات بری لگی تو انہوں نے آنحضرت۰ سے شکایت کردی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (منقول از تفسیرِ نمونہ) ٭ حضرت علی نے بار ہا اس آیت کے ذریعے اپنی اولویت اور افضلیت ثابت کی ہے، کیونکہ ایمان اورجہاد ان تمام خدمات سے بالاتر ہے جو دوران شرک انجام دی گئی ہوں، کیونکہ ان خدمات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پیام: ١۔ اپنے اعمال پر نہیں اترانا چاہئے کیونکہ ایمان کے بغیر عمل کی حیثیت سراب کی سی ہے یا بے روح جسم کی سی۔ ٢۔ مخلص مجاہد دوسروں سے برتر ہیں چاہے دوسروں کے کام بڑے اہم ہی کیوں نہ ہوں۔ (آَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجّ) ٣۔ باایمان مجاہدوں کو دوسروں کے ہم پلہ جاننا معاشرتی مظالم میں سے ایک ظلم ہے۔ (الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ) ٤۔ تقویٰ کی طرح ایمان، ہجرت اور جہاد بھی تمام نیکیوں میں سرِ فہرست ہیں۔(اَعْظَمُ دَرَجَۃً) ٥۔ اگر لوگوں کے نزدیک قبائلی اور نسلی امتیاز قابلِ قدر ہے تو خدا کے نزدیک ایمان، ہجرت اور جہاد امتیاز ہیں۔ (عِنْدَ اللّٰہِ) ٦۔ ایمان دوسرے تمام کمالات کے لئے ضروری ہے۔(اٰمَنُوا) ٧۔ تمام مقدس کاموں کی قدرو قیمت نیت پر منحصر ہے۔( فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) ٨۔ اصل کامیابی اور کامرانی صرف اور صرف ایمان کے زیرِ سایہ ہی ممکن ہے۔(ھُمُ الْفَائِزُونَ) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہی مہاجر اور مجاہد مومنین کو بہشت کی نوید دی ہے۔(یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ) ١٠۔ کسی دین کے جامع ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ فطرت کے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں کو امید بھی دلاتاہے۔(یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ) ١١۔ اگرخدا کی خوشنودی کے لئے فانی نعمتوں سے دستبربردار ہو جائیں تو ابدی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔(نَعِیْم¾ مُقِیم¾) ١٢۔ دنیوی نعمتوں کے لئے زوال اور فنا بہت بڑی آفت ہے جب کہ آخرت میں اس قسم کی کوئی آفت نہیں ہوگی۔ (مُقِیم¾، خَالِدِینَ، اَبَداً) ١٣۔ جو خدا ساری دنیا کو ’’قلیل‘‘ کہتا ہے وہی مجاہدین کے اجر کو (عظیم) کہہ رہا ہے۔ ١٤۔ خداوندِ عالم ہماری قلیل اور فانی چیزوں کو بہت بڑی قیمت کے بدلے خریدتا ہے حالانکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ بھی اسی کا دیا ہوا ہے۔ |
نورِ ہدایت | ![]() |
نکات: ٭ رسولِ اکرم ۰ کے چچا جنابِ عباس اور جنابِ شیبہ ایک دوسرے پر فخر جتا رہے تھے۔ عباس کہنے لگے، ’’یہ میرے لئے نہایت ہی فخر کی بات ہے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں‘‘ اور شیبہ کہنے لگے کہ ’’میں خانہ کعبہ کا کلیدبردار ہوں‘‘۔ اس پر حضرت علی نے فرمایا: ’’میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ آپ لوگوں سے کم سن ہوں لیکن آپ لوگ میری شمشیر اور جہاد کی وجہ سے ایمان لائے ہو‘‘۔ حضرت عباس کو یہ بات بری لگی تو انہوں نے آنحضرت۰ سے شکایت کردی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (منقول از تفسیرِ نمونہ) ٭ حضرت علی نے بار ہا اس آیت کے ذریعے اپنی اولویت اور افضلیت ثابت کی ہے، کیونکہ ایمان اورجہاد ان تمام خدمات سے بالاتر ہے جو دوران شرک انجام دی گئی ہوں، کیونکہ ان خدمات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پیام: ١۔ اپنے اعمال پر نہیں اترانا چاہئے کیونکہ ایمان کے بغیر عمل کی حیثیت سراب کی سی ہے یا بے روح جسم کی سی۔ ٢۔ مخلص مجاہد دوسروں سے برتر ہیں چاہے دوسروں کے کام بڑے اہم ہی کیوں نہ ہوں۔ (آَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجّ) ٣۔ باایمان مجاہدوں کو دوسروں کے ہم پلہ جاننا معاشرتی مظالم میں سے ایک ظلم ہے۔ (الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ) ٤۔ تقویٰ کی طرح ایمان، ہجرت اور جہاد بھی تمام نیکیوں میں سرِ فہرست ہیں۔(اَعْظَمُ دَرَجَۃً) ٥۔ اگر لوگوں کے نزدیک قبائلی اور نسلی امتیاز قابلِ قدر ہے تو خدا کے نزدیک ایمان، ہجرت اور جہاد امتیاز ہیں۔ (عِنْدَ اللّٰہِ) ٦۔ ایمان دوسرے تمام کمالات کے لئے ضروری ہے۔(اٰمَنُوا) ٧۔ تمام مقدس کاموں کی قدرو قیمت نیت پر منحصر ہے۔( فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) ٨۔ اصل کامیابی اور کامرانی صرف اور صرف ایمان کے زیرِ سایہ ہی ممکن ہے۔(ھُمُ الْفَائِزُونَ) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہی مہاجر اور مجاہد مومنین کو بہشت کی نوید دی ہے۔(یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ) ١٠۔ کسی دین کے جامع ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ فطرت کے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں کو امید بھی دلاتاہے۔(یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ) ١١۔ اگرخدا کی خوشنودی کے لئے فانی نعمتوں سے دستبربردار ہو جائیں تو ابدی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔(نَعِیْم¾ مُقِیم¾) ١٢۔ دنیوی نعمتوں کے لئے زوال اور فنا بہت بڑی آفت ہے جب کہ آخرت میں اس قسم کی کوئی آفت نہیں ہوگی۔ (مُقِیم¾، خَالِدِینَ، اَبَداً) ١٣۔ جو خدا ساری دنیا کو ’’قلیل‘‘ کہتا ہے وہی مجاہدین کے اجر کو (عظیم) کہہ رہا ہے۔ ١٤۔ خداوندِ عالم ہماری قلیل اور فانی چیزوں کو بہت بڑی قیمت کے بدلے خریدتا ہے حالانکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ بھی اسی کا دیا ہوا ہے۔ |